اشاعتیں

اپریل, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

Informative Post 1

تصویر
  سوال: سورج یا تیز روشنی پر کچھ دیر نظررکھنے کے بعد ہمیں چاروں طرف اندھیرا کیوں نظر آتا ہے؟    جواب : ہماری آنکھ کی پتلی میں قدرتی طور پر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ تیز روشنی میں سکڑ جاتی ہے تا کہ آنکھ میں زیادہ روشنی داخل نہ ہو اور اسے نقصان نہ پہنچے ۔ اندھیرے میں ہماری پتلی کچھ پھیل جاتی ہے تا کہ آنکھ میں زیادہ روشنی داخل ہو سکے اور ہم اندھیرے میں بھی چاروں طرف کی چیزیں دیکھ سکیں ۔ جب آپ سورج پر نظر ڈالتے ہیں ۔" ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے" یا کسی تیز روشنی کو کچھ دیر دیکھ کر نظر ہٹاتے ہیں تو آپ کی آنکھ کی پتلی خاصی سکڑ چکی ہوتی ہے اور آپ کو چاروں طرف اندھیرا جیسا نظر آتا ہے ۔ جب تیز روشنی کا اثر ختم ہو جا تا ہے اور پتلی اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے تو پھر آپ پہلے کی طرح دیکھنے لگتے ہیں۔

جلدی غصہ آنا Jaldi Gussa ana

تصویر
  جلدی غصہ آنا  بات بات پر لڑ نا اور غصے ہونا اچھا نہیں ، اسکول سے تمہاری شکایات بہت آ رہی ہیں کہ تم بچوں سے لڑتے ہو." جمیل کے ابو نے رات کے کھانے کے بعد جمیل سے اس کے کمرے میں بات کرتے ہوۓ کہا۔ "ابو میں کیا کروں ، مجھے بہت جلدی غصہ آ جا تا ہے " جمیل نے اعتراف کرتے ہوۓ کہا۔ "بیٹا غصہ کرنا بہت بری عادت ہے ،اپنی اس عادت کو بد لو غصہ اور تیز مزاجی سب کو د شمن ، جبکہ میٹھے بول اور اخلاق سے پر گفتگو سب کو دوست بناتی ہے ، ہمیشہ یادرکھو بیٹا کہ ’زبان شیریں ملک گیری ، زبان ٹیڑھی ملک بانکا‘۔ جمیل کے ابو نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا اور پھرجمیل نے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ غصہ نہیں کرے گا اور سب سے پیار کرے گا تا کہ سب اس کے دوست بن جائیں۔ اس دن کے بعد واقعی جمیل نے اپنے آپ کو بدل لیا ۔ اب وہ سب سے محبت سے بات کر تا ۔ جلد ہی جمیل نے محسوس کیا کہ اس کے محبت سے بات کر نے کی وجہ سے لوگ خوداس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور ہرکوئی اس سے دوستی کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔

رحم دل انسان Reham Dil Insan

تصویر
رحم دل انسان  گاؤں راجن پور کے لوگ گاؤں کے چوہدری سے بڑے پریشان تھے۔ چوہدری کو صرف اپنی جیب بھرنے کا خیال رہتاوہ گاؤں کے لوگوں کی ذرا بھی پروا نہیں کر تا تھا اور نہ ہی ان کے دکھ سکھ  میں کام آتا۔ گاؤں کے چوہدری کا ایک ہی بیٹا تھا۔ اس کا نام عادل تھا ۔ عادل باہر ملک سے پڑھ کر آیا تھا اوراس کا مزاج اپنے والد سے بالکل مختلف تھا۔ عادل دوسروں کے دکھ سکھ میں کام آنے والا اور محبت کرنے والا شخص تھا ۔ گاؤں کے لوگ فرصت کے لمحات میں چو ہدری کے متعلق باتیں کرتے "بھلا یہ بھی کوئی انسانیت ہے اپنا پیٹ تو کتا بھی پا لتا ہے بات تو جب ہے کہ چوہدری سب کا خیال رکھے" ایک بزرگ نے ذرا غصے سے کہا۔ وقت گزرتا گیا اور پھرایک دن چوہدری کا انتقال ہوگیا۔ گاؤں کے لوگوں کو چو ہدری کے مرنے کاغم نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ چوہدری کی جگہ اب اس کے بیٹے نے سنبھال لی تھی جو کہ سب کی خبر گیری رکھنے اور محبت کرنے والاشخص تھا۔ گاؤں کے لوگ اب خوش تھے کیوں کہ اب ان کے گاؤں کا چوہدری کوئی ظالم نہیں بلکہ ایک رحم دل انسان تھا۔

کبھی ما یوس نا ہوں Kabhi Mayoos Na Hon

تصویر
کبھی مایوس نا ہوں شمیم باجی اچانک اتنی بیمار ہوئیں کہ انہیں ہسپتال میں داخل کرانا پڑ گیا۔ سارے رشتہ دار انہیں دیکھنے کے لئے ہسپتال آرہے تھے ۔ شمیم باجی کے زیادہ تر رشتہ دار شہر سے دور رہتے تھے ۔ لیکن جیسے جیسے جس کو بھی اطلاع ملی- وہ شمیم باجی کی خیریت معلوم کرنے چلا آیا۔ شمیم باجی بہت محبت والی خاتون تھیں سب سے ہنس کر ملنا ان کی عادت کا حصہ تھا۔ ان کی بیماری کچھ اس نوعیت کی تھی کہ وہ بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں موجود تھیں اور زندگی کی امید بہت کم تھی مگر مرتے دم تک آ خر زندگی کی امید تو لگی رہتی ہے’’جب تک سانس تب تک آ س‘‘ شمیم باجی کے لئے سب ہی دعائیں کر ر ہے تھے۔ ان کے بھائی ہسپتال میں ہر وقت موجود رہے کہ نہ جانے کب کس وقت کس چیز کی ضرورت پیش آ جاۓ ۔ چند دنوں بعد شمیم باجی کی حالت پہلے سے کچھ بہتر ہونے لگی اور پھر وہ اپنے گھر واپس آ گئیں گھر پرشمیم باجی کے بیٹوں اوران کے شوہر نے ان کا خوب خیال رکھا اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگیں۔ سچ ہے زندگی کے ساتھ دکھ سکھ لگے رہتے ہیں۔ ہمارا کام تو صرف یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے دکھ کے دور ہونے اور سکھ کے رہنے کی دعا کریں۔ 

دوستی او تعلق بڑھانا Dosti Or Talooq Bharhana

تصویر
   دوستی او ر  تعلق بڑھانا  بارش بڑے زور سے ہورہی تھی ۔ ذین اپنے گھر جانے کے لیے ایک درخت کے نیچے کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک کار ذین کے پاس آکر رکی " ارے بھئی! آؤ میں تمہیں چھوڑ دوں"۔ کار والے نے ذین کو درخت کے نیچے کھڑے دیکھ کر کہا۔ "کون ہیں آپ ؟"  ذین نے حیرت سے پوچھا۔ "مجھے نہیں جانتے؟ میں تمہارے ابو کا دوست ہوں ، ایک بارتم سے ملاقات بھی ہوچکی ہے ، اب آ ؤ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ جاؤ ورنہ یہ بارش اب تھمنے والی نہیں"۔ کار والے نے کہا اتنے میں ذین کے گھر جانے والی بس بھی آ گئی اورذین بس میں سوار ہو گیا ۔ "ابو وه شخص کہہ رہا تھا کہ میں تمہارے ابو کا دوست ہوں ، جب کہ میں نے اسے آج تک نہیں دیکھا"۔ ذین نے گھر پہنچتے ہی اپنے ابو سے کہا۔ بیٹا کبھی بھی کسی انجان آ دمی کے ساتھ نہیں جا نا چاہئے، بہت سے لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ دوستی اورتعلق جتاتے ہیں - ذین کے ابو نےذین کو سجھاتے ہوۓ کہا اور ذین نے بھی وعدہ کیا کہ وہ بھی کسی ایسے شخص کے ساتھ نہیں جاۓ گا جسے وہ جانتا نہ ہو۔

ڈاکٹرعلی کا کلینک Doctor Ali Ka Clinic

تصویر
 ڈاکٹرعلی کا کلینک  موسم کیا بدلا بیماریوں نے جیسے سب ہی کا گھر د یکھ لیا ہو۔ ڈاکٹروں کی کلینک پر مریضوں کی لمبی چوڑی لائن لگی رہتی تھی ۔ بخار، نزلہ،سردرد اور ملیریا جیسی بیماریاں عام ہو چکی تھیں ۔ ڈاکٹر علی کی کلینک محمودہ آباد میں تھی ۔ ان کی کلینک پر بھی خوب رش لگارہتا تھا ۔ مریضوں کی قطار کلینک کے باہر تک نظر آتی ۔ ایسا لگتا تھا لوگ دوا لینے نہیں بلکہ کسی سبیل پرشربت لینے کے لیے کھڑے ہوں ۔ "ڈاکٹر صاحب میرا بخار تواترنے کا نام ہی نہیں لیتا"۔ ایک مریض نے ڈاکٹرعلی سے اپنے بخار نہ اترنے کی شکایت کرتے ہوۓ کہا۔ جناب آپ کوملیریا ہوا ہے، کچھ وقت تو لگے گا بخاراتر نے میں اور ویسے بھی بیماری کے متعلق کہا جا تا ہے کہ ’’ آتی ہے ہاتھی کے پاؤں اور جاتی ہے چیونٹی کے پاؤں‘‘۔ ڈاکٹر علی نے مریض کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا اور مریض دوا لے کر اللہ میاں سے اپنی بیماری کے خاتمے کی دعا کرتے ہوۓ اپنے گھر روانہ ہو گیا۔

وقت ضائع کرنا Waqt Zaya Karna

تصویر
 وقت ضائع کرنا  رمیض بیٹا تمہارے ٹیسٹ شروع ہور ہے ہیں ، پڑھائی میں دل لگا لو۔ رمیض کی امی نے  رمیض کو کمپیوٹر پر گیم کھیلتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔ "اچھا امی ابھی تھوڑی دیر میں پڑھتا ہوں"۔ رمیض نےکہا اور پھر گیم کھیلنےمیں لگ گیا ۔  رمیض کےٹیسٹ شروع ہوۓ اور پھر ایک ہفتے میں ختم بھی ہو گئے مگر جب ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ  رمیض تین مضامین میں فیل ہے ۔ اب تو رمیض بڑا ہی اُداس اوررو نےدھونے  لگا  ۔ "رونے کا اب کیا فائدہ جب موقع تھا پڑھائی کا تو تم نے پڑھانہیں اب پچتانے کا فائدہ ؟"  رمیض کو احساس ہوا کہ واقعی اس نے بڑی غلطی کی ہے جب ٹیسٹ شروع ہونے والے تھے تو اسے ساری توجہ اپنی پڑھائی پر ہی رکھنا تھی تا کہ وہ اچھے نمبرز حاصل کرتا مگر اس نے پڑھائی کا سارا وقت کمپیوٹر پر گیم  کھیلنے میں گزار دیا۔

شہرت زیادہ حقیقت کچھ نہیں Shohrat Ziada Haqeeqat Kuch Nhi

تصویر
 شہرت زیادہ حقیقت کچھ نہیں  ارحم کا موڈ آج بہت خراب تھا۔ اس کا قمیتی بلا جوٹوٹ گیا تھا۔ اسے دکھ اس بات کا تھا کہ آج اس کا میچ تھا اور آج ہی بلا بھی ٹوٹ گیا , ارحم نے اپنے ابو سے نیا بلا خریدنے کے لیے بازار چلنے کو کہا۔ ابو اتنی مشہور کمپنی کا بلا ٹوٹ گیا اب اس سے بہتر کمپنی تو اور نہیں "تم کس کمپنی کا بلا خریدو گے؟" ابو نے پوچھا اب ہم مشہور کمپنی کے بجائے غیر معروف کمپنی کا مگر اچھا بلا خرید یں گے ۔ اس لیے کہ مشہور کمپنی کے بیٹ کا حال تو دیکھ ہی لیا ” درشن تھوڑے نام بہت‘‘۔ ارحم نے کہا اور پھر دونوں باپ بیٹا ایک غیر معروف مگر اچھی کمپنی کا بیٹ خریدلاۓ اور پھر اس بیٹ سے ارحم  نے وہ چو کے اور چھکے لگاۓ کہ میچ دیکھنے والے بھی دیکھتے ہی رہ گئے ۔ بعض اوقات مشہور ہو جانے والی چیز میں اپنے معیار پر پورانہیں اترتیں ، شہرت زیادہ ہوتی ہے اور حقیقت کچھ  نہیں اس کے برعکس غیر معروف مگر اچھی کمپنیوں کی مصنوعات زیا دہ پائیدار ثابت ہوتی ہیں۔  

قرض Qarz

تصویر
 قرض  نعمان بھائی کا چند روز پہلے انتقال ہو چکا تھا ۔ زہیب نےنعمان بھائی سے 5000 روپے بطورقرض لیے تھے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ قرض کی رقم ان کی بیوہ کو دے دیں ۔ ایک دن انہوں نے نعمان  بھائی کی بیوہ کو قرض کی رقم لوٹا دی قرض کی رقم لوٹانے کے بعد زہیب اپنے گھر آ گئے اوراپنی بیوی سے کہنے لگے میں نےنعمان بھائی کی بیوہ کوقرض کی رقم لوٹا دی ہے، اب میں خودکو بڑاہلکا محسوس کر رہا ہوں ۔ چلو اچھا ہوا ، جس کی چیزتھی اس پر خرچ ہوگئی ، آ ج کے دورمیں اللہ کسی کا قرض اتروا دے تو بڑی نعمت ہے ۔ اب کم از کم ہمارے او پرکوئی بو جھ تو نہیں رہا زہیب کی بیوی نے کہا اورزہیب نے اپنا قرض اتر جانے پراللہ کا شکر ادا کیا۔

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے Jisse ALLAH Rakhe Usse Kon Chakhe

تصویر
 جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے  بس میں بھیٹر اس قدر تھی کہ زیان باوجود کوشش کے بس میں نہیں بیٹھ سکا۔ اسے اسکول جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی بس میں وہ بیٹھ نہیں سکا جس کا اسے بڑادکھ تھا۔ وہ پیدل ہی اسکول کی جانب روانہ ہو گیا تا کہ جتنا فاصلہ ہوسکے وہ طے کر لے اس طرح کچھ وقت بچے گا۔ ابھی  زیان تھوڑا ہی دور گیا ہوگا کہ اس نے دیکھا کہ جس بس میں وہ بیٹھ نہیں سکا تھا وہ بس ایک گہرے کھڈ میں گری ہوئی ہے اورزخمی لوگ مدد کے لیے چلا رہے ہیں ۔  زیان بھی بھاگم بھاگ دیگر لوگوں کے ہمراہ زخمیوں کو بس سے باہر نکالنے میں مدد کرنے لگا۔  زیان کو بار بار اس بات کا خیال آ رہا تھا کہ اللہ جوکر تا ہے بہتر کرتا ہے اگر وہ اس بس میں بیٹھ جاتا تو وہ خود بھی  زخمی ہوتا مگر’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔  زیان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مصروف ہو گیا۔ 

سُست انسان Soost Insan

تصویر
سُست انسان  ارے! اکرم صاحب اپنے ٹوٹے ہوۓ صحن کا فرش تو بنوالو ۔ شکیل صاحب نے اکرم صاحب کے گھر بیٹھے ہوۓ ان کے صحن کے ٹوٹے فرش کو دیکھ کر کہا۔ اکرم صاحب ذرا سُست طبیعت کے انسان تھے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ۔ یہی وجہ تھی کہ کئی دن گزرنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے گھر کے صحن کا فرش جو جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا تھانہیں بنوایا تھا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب پورا گھر بنواؤں گا تو فرش بنوالوں گا۔ اکرم صاحب نے کہا۔ یہ کیا بات ہوئی ، پورا گھر بنوانے کے لیے تو بڑی رقم کی ضرورت ہے اور تمہارے پاس اتنی رقم ہے نہیں ،اب اتنے سے کام کوکروانے کے لیے تم بڑے کام کے انتظار میں ہو جس کا دور دور تک امکان بھی نہیں ۔ شکیل صاحب یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور اکرم صاحب انہیں یوں جاتا د کھتے رہے جیسے ان پر کوئی اثر ہی نہ ہوا ہو۔

آفت کے آثار پہلے سے نظر آ نا Aafat Ke Asaar Pehle Se Nazar Ana

تصویر
  آفت کے آثار پہلے سے نظر آ نا  بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کسان پہلے ہی پریشان تھے - اب کچھ دنوں سے جو فصل تیارتھی اس پر ٹڈیوں نے آ نا شروع کر دیا تھا۔  بھائی دعا کرو جلد بارش ہو جاۓ ، اب تو ٹڈیاں بھی آنے لگی ہیں ۔ سمجھ لو کہ آنے والی آفت کے آثار نظر آرہے ہیں ’’ ٹڈی کا آ نا کال کی نشانی ‘‘ ہے۔ گاؤں کے ایک کسان نے فکر مند ہوتے ہوۓ دوسرے کسانوں سے کہا اور پھرسب ہی کسان رات بھراللہ تعالی سے بارش ہونے کی دعا کرتے رہے۔ دوسرے دن صبح ہی سے گاؤں پر بادل منڈلا رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے زورداربارش بھی ہوگئی ۔ بارش ہوتے ہی تمام کسانوں کے چہرے خوشی سے جھوم اٹھے ہرکوئی بارش ہونے پر خوشی سے ناچ رہا تھا ۔ تمام کسانوں نے بارش ہو نے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کیوں کہ اللہ کی رحمت سے اب گا ؤں والوں کو امید تھی کہ ان کی فصل بہت اچھی ہوگی اور ٹڈیوں کے کھیتوں سے واپس چلے جانے کے بعد ان کے کھیتوں کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

چور کے پیر کہاں Chor Ke Peaar Kahan

تصویر
 چور کے پیر کہاں   فیض بابا کے گھر گاؤں کے تقریباً سب ہی لوگ جمع تھے ۔ اور اپنے افسوس کا اظہار  کر رہے تھے ۔ ہوا یوں کہ فیض بابا کے گھر کل رات چوری ہوگئی تھی ۔ چوران کے گھر سے سارا سامان لے کر چلے گئے تھے- یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے لوگ فیض بابا سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کر رہے تھے ۔ فیض با با تم نے چورکود یکھا تھا ؟ ایک نے کہا۔ "نہیں " فیض بابا نے مختصر جواب دیا۔ ارے بھئی دیکھتے بھی کیسے"چور کے پیر کہاں" ۔ چورتو ذرا سا کھٹکا سن کرہی بھا گ جاتا ہے گاؤں کے ایک شخص نے اپنی رائے دیتے ہوۓ کہا۔    اور پھر کچھ دیر بعد سب ہی اپنے اپنے افسوس کا اظہا راور ہمدردی کر نے کے بعد ایک ایک کرکے واپس اپنے گھروں کو چلے گئے اور بے چارہ فیض بابا ایک بار پھر اپنے گھر میں تنہا بھیٹے چور کے متعلق سوچنے لگے ۔

غصہ والا لڑکا Guse Wala Larka

تصویر
غصہ والا لڑکا  بڑے بوڑھوں سے ہمیشہ ہی سنتے آۓ ہیں کہ غصہ حرام ہے مگر شاید رحیم نے یہ نہیں سن رکھا تھا اور اگرسن بھی رکھا تھا تو وہ اس پرعمل نہیں کرتا تھا ۔  ہر ایک سے غصہ میں بات کرنا اور بات بات پر ناراضگی کا اظہار کرنا اس کی تو جیسے عادت تھی ۔ ایک دن اس کے دوست نے رحیم سے کہا ــ "یا ر! رحیم آج تو کہیں پکنک منانے چلتے ہیں تم بتاؤ کدھر چلیں؟" میری بلا سے "جہاں سینگ سمائے چلے جاؤ"میں تو کہیں نہیں جاؤں گا ۔ رحیم نے حسب عادت غصے سے کہا بے چارہ اس کا دوست جو بڑی امیدوں کے ساتھ رحیم کے پاس آیا تھا اپنا سا منہ لے کر چلا گیا ۔ رحیم کے ہر وقت چڑ چڑے رہنے اورغصے کی عادت کی وجہ سے اس کے دوست اب آہستہ آہستہ اس سے کترانے لگے اور پھرایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب رحیم کا کوئی بھی دوست باقی نہیں رہا کیوں کہ جو غصے والے ہو تے ہیں ان سے کوئی بھی دوستی کرنا پسند نہیں کرتا ، پیاراوراخلاق سے ہی لوگوں کے دل جیتے جاتے ہیں۔

خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے Khuda Deta Ha Tu Chappar Phar kar Deta Ha

تصویر
 خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے   جب مہنگائی بہت زیادہ ہو تو گھر کا گزارا بڑی مشکل سے ہوتا ہے ۔ یہی حال کچھ فاروق کے ساتھ تھا۔ وہ دن میں کالج میں پڑھتا اور شام میں بچوں کے کھلونے فروخت کرتا۔ اس طرح وہ اپنے بوڑھے ماں، باپ کا پیٹ پال رہا تھا۔ فاروق ایک دن بازار میں کھلونے بیچ رہا تھا- تو اس نے دیکھا کہ ایک جگہ انعامی رقم کے ٹکٹ مل رہے ہیں فاروق نے بھی ایک سوروپے والا ٹکٹ خرید لیا۔ دن گزرتے گئے اور فاروق بچوں کے کھلونے فروخت کر کے اپنی تعلیم اور گھر کا خرچ پورا کرتارہا۔ ایک دن اخبار میں ان ٹکٹوں کے نمبر شائع ہوۓ جوانعامی رقم کے حوالے سےفاروق نے خریدا تھا۔ اس نے دھڑ کتے دل سے پہلے اپنے ٹکٹ کے نمبرکود یکھا اور پھر اخبار میں آنے والے نمبروں سے ملانے لگا۔ "وہ مارا....!"فاروق خوشی سے چلایا ۔ پہلا انعامی رقم کا نمبراس کے خریدے ہوۓ ٹکٹ سے مل گیا تھا۔ اب توفاروق کے وارے نیارے ہو گئے ۔ پورے محلے میں خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سب ہی محلے والے فاروق کوانعام نکلنے پر مبارک باد دے رہے تھے۔ واقعی سچ ہے کہ ’خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے‘۔

غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے Ghalti Koi Kare Aur Uski Saza Kisi Aur Ko Miley

تصویر
  غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے  یاور اور نواز کی صورتیں کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی تھیں اکثر ایسا بھی ہوتا کہ یاور کی غلطیوں اور شرارتوں کی سزا بچارے نواز کو ملتی۔ یاور اور نواز دونوں جڑواں بھائی تھے۔ یاور بہت حد تک شرارتی تھا جبکہ نواز سیدھا لڑکا تھا۔ ایک دن شب برات کی موقع پر گلی میں کچھ لڑکے پٹاخے پھوڑ رہے تھے۔ یاوربھی ان لڑکوں میں شامل تھا۔ پٹاخے چھوڑنے کی وجہ سے محلے کے لوگ پریشان نظرآ رہے تھے اس لئے وہ ان لڑکوں کو ڈانٹنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلے تو سارے لڑکے بھاگ گئے۔ محلے کے ایک شخص نے یاوراور نواز کے گھر میں شکایت کردی کہ نواز پٹاخے چھوڑ رہا ہے۔ نواز کے ابو نے نواز کوخوب ڈانٹ پلائی جبکہ یاور دوسرے کمرے میں چھپا بیٹھا تھا اور نواز ابو کی ڈانٹ کے کھاتے وقت سوچ رہاتھا کہ گناہ بھی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی کو ملے ۔

بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی Bewakof Ki Khas Nishani Nhi Hoti

تصویر
  بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی  میری بات پر یقین کرو، جنگل میں خزانہ دفن  ہے عباس نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوۓ کہا۔ تم خواہ مخواہ کی بات کر ر ہے ہو، یہ بھلا کیسےممکن ہے؟ قاسم نے تعجب کا اظہار کر تے ہوۓ کہا۔ عباس اور قاسم گہرے دوست تھے ۔ عباس کوکسی طرح یہ بات معلوم ہوئی کہ جنگل میں خزانہ دفن ہے اس لیے وہ اپنی بات پر اصرار کر رہا تھا جبکہ قاسم کو اس بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ دونوں دوست اس معاملے پر کافی دیر سے بحث کر ر ہے تھے ۔ ’’تم مجھے بے وقوف لگتے ہو قاسم نے عباس کی طرف غور سے دیکھتے ہوۓ کہا۔ کیا میں تمہیں بے وقوف لگتا ہوں؟‘‘عباس نے مصنوعی غصے سے پوچھا۔ کیوں؟ بے قوف کے سر پر کیا سینگ ہوتے ہیں؟ قاسم نے عباس کوایک بار پھر غور سے دیکھتے ہوۓ کہا اب توعباس کو جیسے واقعی غصہ آ گیا وہ قاسم کو مارنے کے لیے اس کی طرف بھاگا مگرقاسم پہلے سے ہی تیار تھا وہ وہاں سے بھاگ گیا اور عباس منہ پھلاۓ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

چور بندر Chor Bandar

تصویر
چور بندر  نعیم اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنی خالہ کے گھر کچھ دن رہنے کے لئے گیا۔ اس کی خالہ شہر سے دور ایک گاؤں میں رہتی تھیں ۔ جس گاؤں میں اس کی خالہ رہتی تھیں وہاں بہت سے بند ربھی تھے جو پورے گاؤں میں خوب شرارتیں کرتے پھرتے- شام کے وقت نعیم اپنے کزن کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا ، اتنے میں اچانک ایک بندرنعیم کا چھوٹا بلا اور گیند اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو نعیم نے بہت شورمچایا نعیم کے شور مچانے پر گاؤں کے کچھ لوگوں نے بندر کا پیچھا کیا بندربھاگتے بھاگتے نعیم کی گیندتو پھینک گیا مگر بلا لے کر بھاگ نکلا۔ نعیم ا پنی گیند ہاتھ میں لئے اور بلے کے چھن جانے پر افسوس کے ساتھ بندرکو بھاگتے ہوۓ دیکھتارہا۔ بیٹا افسوس نہ کرو، یہ بندر ہیں ہی بڑے شرارتی ،شکر کرو کہ تمہاری گیند چوڑگیا ۔ گاؤں کے ایک شخص نے نعیم  کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ کر دلاسہ دیتے ہوۓ کہا۔ ہاں بیٹا ! بس یوں سمجھ لو کہ’ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ دوسرے شخص نے نعیم سے کہا اورنعیم منہ بناتا ہوا اپنی خالہ کے گھر چلا گیا۔

باد شاہ کا حکم Badshah Ka Hukum

تصویر
  باد شاہ کا حکم  گھوڑوں کی آوازوں سے لگتا تھا ۔ کہ جیسے بستی میں زلزلہ آ گیا ہو۔ گھوڑوں پر سوارلوگ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوۓ بستی میں داخل ہوۓ ۔ "بستی کا سردار کہاں ہے"؟ بستی میں داخل ہوکرایک گھوڑے سوار نے ( ادھرادھر نظر دوڑاتے ) ہوۓ کہا۔ "میں ہوں بستی کا سردار کیا بات ہے"؟ بڑی عمر کا ایک شخص آگے بڑھا۔ "تمہیں بادشاہ نے اپنے دربار میں بلایا ہے، ابھی اوراس وقت پہنچو"۔ گھوڑے سوار نے کہا اور پھر سارے گھوڑے سواراپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوۓ واپس روانہ ہو گئے ۔" بابا آخر بادشاہ نے آپ کو کیوں بلایا ہوگا" سردار کے بیٹے نے پوچھا۔ "مجھے کیا خبر، مجھے تو اب جلدی سے جاناہی ہو گا کیوں کہ حاکم کا ملازم ہمیشہ جلدی ہی کرتا ہوا آ تا ہے" ۔ سردار نے کہا اور پھر وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے جلدی جلدی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔

ہرکوئی اپنی اپنی کہتا ہے Har Koi Apni Apni Kheta Hai

تصویر
 ہرکوئی اپنی اپنی کہتا ہے  یار! جاوید آج تم کس رنگ کی قمیض پہن کر آۓ ہو؟  جمال نے اپنے دوست جاوید کی شوخ رنگ کی قمیض کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ تعجب سے کہا۔  "میرے انکل نے جاپان سے بھیجی ہے۔ مجھے اچھی لگی میں نے پہن لی‘‘۔ جاوید نے بے فکری سے جواب دیا۔ " قمیض کا رنگ بہت شوخ ہے" جمال نے اپنی بات پر زور دیتے ہوۓ کہا۔  یار جمال تم نے سنانہیں پسند اپنی اپنی ، مجھے قمیض پسند آئی اور میں نے پہن لی ، مجھے دوسروں کی فکر نہیں  ہرشخص اپنی اپنی کہتا ہے’جتنے منہ اتنی باتیں‘۔ جاوید نے ایک بار پھر بے فکری سے کہا اور پھر دونوں دوست میدان میں کرکٹ کھیلنے کے لئے چلے گئے ۔

سبنری بازار (Sabzi Bazar)

تصویر
سبزی بازار  نومی سبزی  بازار میں سبزیوں کا ٹھیلا لگا تا تھا۔ اس کے ساتھ اور دیگر لوگ بھی مختلف اشیاء کے ٹھیلے لگاتے ۔ سبزی  بازارہی میں کچھ کی دکانیں بھی تھیں جن پر سبزیاں اور دیگر اشیاء ملتیں ۔  سبزی بازار میں ٹھیلے والوں کو اکثر پولیس والے تنگ کرتے تھے۔ جبکہ پکی دکانوں کے مالکان کو کہ جنہوں نے اپنا سامان دکان سے باہر بھی رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے چلنے پھرنے والوں کو تکلیف بھی ہوتی تھی اس کے باوجود پولیس والے دکان والوں کوتو کچھ نہ کہتے البتہ ٹھیلے والوں کوخوب کھری کھری سناتے اور ٹھیلے والے بے چارے اپنے ٹھیلے آ گے پیچھے کرتے رہتے ۔ پولیس کے اس رویے پرا کثر ٹھیلے والے ایک دوسرے سے کہتے ’غریوں پر سب کا زور چلتا ہے ،غریب کو جو چا ہے کھری کھری سنادے یاد بادے کوئی پوچھنے والانہیں۔ "ہاں بھائی ٹھیک کہتے ہو" غریب کی جوروسب کی بھابی ۔ دوسرے ٹھیلے والے نے کہا اور سب ہی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی ۔

جس کی چیز ہواسی کا نام ہوتا ہے (Jis ki Cheez ho Ussi ka Nam Hota Hai)

تصویر
  جس کی چیز ہواسی کا نام ہوتا ہے  جنگل کے قریب ایک چرواہا بکریاں چرار ہا تھا ۔ بکریوں کے ریوڑ سے ایک بکری کہیں ۔ غائب ہوگئی اور اب بے چارا چرواہ فکرمند بیٹھا تھا۔ چرواہا نے سوچا چلوقریب کے گاؤں جاکر معلوم کرتے ہیں شاید اس کی بکری راستہ بھٹک کر وہاں چلی گئی ہواس خیال کے آتے ہی چرواہا -  اپنی بکری کی تلاش میں گاؤں جا پہنچا۔ گاؤں پہنچ کر چرواہا نے وہاں کے لوگوں سے اپنی کھوئی ہوئی بکری کے بارے میں پوچھا اتفاق سے اس گاؤں کے ایک آدمی کو وہ بکری مل گئی تھی ۔ وہ آ دی شریف تھالہذا اس نے بکری واپس کر دی ۔ چرواہا نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراپنی بکری لے کر واپس لے کر گاؤں چلا گیا۔  

کسی چیز کا کوئی نام ونشان نہ ہونا (Kisi Cheez Ka Koi Namo Nishan Na Hona)

تصویر
  کسی چیز کا کوئی نام ونشان نہ ہونا  سمجھ میں نہیں آرہا میرا چشمہ کہاں غائب ہوگیا، نام ونشان تک نظرنہیں آرہا ایسے غائب ہوگیا جیسے "گدھے کے سر سے سینگ"۔ اسد صاحب اپنے چشمے کی تلاش میں سارے گھر کی تلاشی لیتے ہوئے بڑ بڑاۓ جارہے تھے ۔  آپ بھی عجیب ہیں چشمے کی ' تلاش میں سارا گھر الٹ دیا‘۔ اسد صاحب کی بیگم نے جوابھی ابھی باہر سے آئی تھیں اسد صاحب کو گھر کا حشر نشر کرتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔" بھئی بیگم میرا چشمہ نہیں مل رہا"اسد صاحب نے غصے سے کہا ۔  چشمہ تو آپ کے سر پر لگا ہوا ہے بیگم نے ہنستے ہوئے کہا اور اسد صاحب نے فوراً ہی اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوۓ کہا "تم ٹھیک کہتی ہوبیگم چشمہ میرے سر پر ہے اور میں..." یہ کہہ کر وہ بھی ہنس دیئے ۔  بعض اوقات انسان کو سامنے رکھی ہوئی چیزیں نظرنہیں آتیں مگراس کیلئے ہمیں غصہ نہیں کر نا چا ہے بلکہ صبر کے ساتھ چیز کوڈھونڈ نا چا ہے ۔ جو کام صبر سے کیا جاۓ اس کے اثرات اچھے نکلتے ہیں۔

وہ خاتون جو گھر کے سارے کام خودہی کرتی ہوں (Wo Khatoon Jo Ghar Ke Sarey Kam Khud Hi Karti Hain)

تصویر
 وہ خاتون جو گھر کے سارے کام خودہی کرتی ہوں  خالہ محمودہ کا اس دنیا میں کوئی تھا ہی نہیں ۔ان کے شوہر کا انتقال بہت پہلے ہو چکا تھا اوراولاد بھی ان کی کوئی نہیں تھی ۔اپنے گھر میں وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں ۔ اکیلے  پن سے گھبرا کر وہ اکثر آس پڑوس کے گھروں میں بیٹھ جایا کرتیں اور ادھر ادھر کی  با تیں کر کے اپناوقت پاس کر تیں ۔ خالہ محمودہ کی وہی مثال تھی کہ "آپ ہی بی بی آپ ہی باندی" اپنے گھر کے سارے کام خود ہی کرتیں ۔ خالہ محمودہ کبھی کبھی اپنے اکیلے پن سے گھبرا ا بھی جاتیں ۔ ایک دن انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے گھر میں پرندے اور کچھ پالتو جانور پال لیے جائیں تا کہ ان کی دیکھ بھال میں وقت اچھا گز رجاۓ ۔ یہ سوچ کر خالہ محمودہ نے مختلف قسم کے پرندوں کے ساتھ ساتھ ایک بکری اور ایک دنبہ بھی خریدلیا۔ پرندوں اور پالتو جانوروں کو گھر میں لے آنے کے بعد خالہ محمودہ کا وقت اب پہلے سے بہت اچھا گزرنے لگا۔ پرندوں کی آواز سے ان کے گھر میں رونق سی ہوگئی وہ پرندوں اور جانوروں کی خدمت کر کے ایک خوشی محسوس کرنے لگیں اور ان کا وقت بھی اچھا گز رنے لگا۔

ایک در بند ہزار در کھلے (Ek Dar Band Hazar Dar Khule)

تصویر
 ایک در بند ہزار در کھلے  عالم صاحب آج کل کا فی پریشان رہتے تھے ۔ان کے دو بچے تھے جن کی تعلیم کے اخراجات بھی زیادہ تھے - کیوں کہ دونوں بچے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ کمپیوٹر کی تعلیم بھی حاصل کررہے تھے ۔   عالم صاحب کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ملازمت چھوٹ گئی تھی کیوں کہ کمپنی کے مالک نے اپنا سارا کاروبار فروخت کر دیا تھااورخودملک سے باہر چلا گیا۔ ملازمت چھوٹنے پرعالم صاحب بڑے اداس اور فکر مند رہنے لگے ۔ایک دن ان کے دوست نے ان سے کہا تم پریشان مت ہو،روزی دینے والا تو اللہ ہے ، جب اللہ نے اپنے بندے کو اس دنیا میں پیدا کیا تو اس کا رزق پہلے بھیج دیا،ایک ذریعہ ختم ہونے پر اللہ کئی اور ذریعے پیدا کردیتا ہے، ’ایک در بند ہزار در کھلے‘ ۔ کہتے تو تم ٹھیک ہو بس دعا کرو جلد ہی کوئی انتظام ہو جاۓ تا کہ گھر کا خرچ اور بچوں کی تعلیم میں کوئی حرج نہ ہو۔عالم صاحب نے اپنے دوست کے ہمت بڑھانے پر کہا اور پھر کچھ ہی دن بعدعالم صاحب کو ایک دوسری کمپنی میں بہت اچھی ملازمت مل گئی جہاں ان کی تنخواہ پہلے سے بھی زیاد تھی ۔انہوں نے اللہ کی اس کرم نوازی پر اس کا شکر ادا کیا۔ دورکعت نما

بہت زیادہ عمر رسیدہ ،مرنے کے قریب ( Bohat Ziada Omar Raseedha Marna Ke Kareeb)

تصویر
  بہت زیادہ عمر رسیدہ ،مرنے کے قریب  چاچا اکبربڑے مزے کے آ د می تھے۔ بیوی بچے ان کے تھے نہیں لہذا سارا سارا دن اِدھر اُدھر گھومتے رہتے۔اپنے مکان کا ایک حصہ انہوں نے کراۓ پر دیا ہوا تھا جس کے کراۓ سے وہ اپنا گزر بسر کرتے ۔ چاچا اکبر کی عمر ساٹھ سال سے کچھ زیادہ ہی تھی مگر دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے بیس سال چھوٹے نظر آتے۔ "چاچا کوئی کام کاج ہی کرلو ،سارا دن گھومتے پھرتے نظر آ تے ہو،" نوازنے جو چاچا   اکبر  کا پڑوسی تھا ایک دن چا چا کوروک کر کہہ ہی دیا۔  برخوردار گھومنا پھرنا بھی تو کام ہی ہے ، اور اب ویسے بھی ہم تو ’’پاؤں قبر میں لٹکاۓ بیٹھے ہیں‘‘ بھلا اس عمر میں اب کسی کی کیا نوکری کر یں گے‘ چا چا نے اپناہاتھ نچاتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گئے ۔ نواز چاچا اکبر کو جاتے ہوۓ دیکھ کر خودہی شرمندہ ساہوکررہ گیا۔

رسی جل گئی پر بل نہیں گیا (Rassi Jal Gai Per Bal nhi Gya)

تصویر
  رسی جل گئی پر بل نہیں گیا  سیٹھ ہارون ایک زمانے میں شہر کے سب سے رئیس آدی تھے مگر کاروبار میں  مسلسل نقصان کی وجہ سے اب ان کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی تھی ۔ کئی لوگوں کے مقروض ہو چکے تھے اس کے باوجود بھی ان میں اکڑ وہی پہلے والی تھی۔ بات بات پر غصہ ہونا اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھنا انہوں نے اب بھی نہیں چھوڑا تھا۔ سیٹھ ہارون کی ان ہی عادتوں کو دیکھ کر اکثر لوگ آپس میں ان کے بارے میں تبصرہ کرتے اور کہتے کہ سیٹھ ہارون کی دولت چلی گی مگر غرور نہیں گیا، کوئی کہتا: "رسی جل گئی پر بل نہیں گیا"۔   سیٹھ ہارون کے دل میں غریبوں کی محبت ہی نہیں تھی ان کا دل تو محبت سے خالی تھا۔ دل رکھنے والے لوگ اس دنیا میں ایک نہیں کئی ہیں مگران کا کوئی نہیں ہوتا۔ لوگ اس کے ہوتے ہیں جو سب سے محبت کرتا ہو۔

ایسی با تیں سب جانتے ہیں (Essi Baatein sab Jante Hain)

تصویر
  ایسی با تیں سب جانتے ہیں  چودہ اگست کا دن جب آیا تو سب ہی خوش تھے۔ پاکستان کی آزادی کا دن ۔ اس دن سب ہی کی طرح کامران اور اس کے گھر والے بھی بہت خوش  تھے۔ کامران نے تو اپنے پورے گھر میں ہری جھنڈیاں لگا رکھی تھیں اور سارا دن ملی گانے گاتا پھررہا تھا حالانکہ اس سے پہلے کسی نے کامران کو گاتے نہیں سنا تھامگر بھلا "گا نارونا کس کونہیں آتا "اور پھر دن بھی جب آزادی کا ہو تو دل خوش ہو تاہی ہے۔ کامران بھی اپنی خوشی کا اظہارقومی گا نے گاکر کر رہا تھا۔ صبح کے وقت اپنے اسکول میں بھی کامران نے قو می گانے سنائے تھے اور اسے انعام بھی ملاتھا۔ کامران جب اپنا انعام لے کر گھر آیا تو سب نے ہی اسے مبارک باد دی ۔ کامران اسکول سے آنے کے بعد دن بھر اپنے دوستوں کے ساتھ قومی جنڈاہاتھ میں تھا مے بابر گھومتارہا۔ اسے آزادی جیسی نعت کا احساس تھا اس لئے وہ آزادی کے اس دن کو بھر پور طریقے سے منارہا تھا۔

دیکھنے میں دل موم ہے مگر سنگ دل ہے (Dekhne Mai Dil Moom Ha Magar Sang Dil Ha)

تصویر
  دیکھنے میں دل موم ہے مگر سنگ دل ہے  کاشان نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی تھی ۔ کمپنی کا مالک دیکھنے میں بڑا نرم دل لگتا تھا مگر تھا بڑا سخت گیر۔ بات بات پر ملازمین کو بری طرح سے ڈانٹتا اور کام میں غلطی ہونے پران کی تنخواہ میں سے پیسے کاٹ لیتا تھا  کمپنی کے ملازم اکثرآپس میں بات کرتے کہ مالک دیکھنے میں کتنا بھولا لگتا ہے مگر حقیقت میں "ظاہرکا نرم باطن کا سخت" ہے۔ ملازمین چونکہ مجبور تھے اس لئے وہ کمپنی میں کام کرتے تھے اور اپنا وقت گزار رہے تھے وگرنہ کمپنی کے مالک کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ سخت گیر اور ہروقت غصے میں رہنے والوں کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں سے سب کی دور جانے کی کوشش کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جن کی کوئی مجبوری ہو۔ میٹھی زبان اور پیار سے جوکام بہتر انداز سے کرائے جاسکتے ہیں وہ غصے اورنفرت سے کبھی نہیں کرائے جاسکتے۔ 

ظاہر بات چپ نہیں سکتی تمام دنیا پر روشن ہو جاتی ہے (Zahir Baat Chup Nhi Sakti Tamam Duniya Per Roshan Hojati Hai)

تصویر
ظاہر بات چپ نہیں سکتی تمام دنیا پر روشن ہو جاتی ہے۔  احسن بہت ذہین لڑکا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے میٹرک کا امتحان دیا تھا اور اب وہ بڑی بے چینی سے رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا۔ مگر اس بار اس نے اتنی زیادہ محنت کی تھی کہ  اسے یقین تھا کہ اس بارسارے شہر میں اس کی کامیابی کے چرچے ہوں گے۔  پھر وہ دن بھی آ ہی گیا جس کا انتظار تھا-احسن نے سارے شہر کے تمام اسکولوں کے طلبا سے میٹرک کے امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ ہر طرف سے اسے مبارکبادیں مل رہی تھیں۔ اخبارات میں بھی احسن کے انٹرویو تصاویر کے ساتھ شائع ہورہے تھے۔ سارے شہرمیں احسن کی زبردست کامیابی کے چرچے تھے۔ سچ ہے ظاہر بات چھپ نہیں سکتی تمام دنیا پر روشن ہو جاتی ہے۔  

مستقل مزاج اورحوصلہ مند آدی جہاں جاتا ہے اپنے لیے جگہ پیدا کر لیتا ہے(Mustaqil Mizaj or Hosla Mand Admi Jahan Jata hai Apne Lyein Jaga Paida Karleta Hai)

تصویر
  مستقل مزاج اورحوصلہ مند آدی جہاں جاتا ہے اپنے لیے جگہ پیدا کر لیتا ہے  عاصم بہت ہی ذہین اور بہادر لڑکا تھا۔ ہر ایک کے کام آنا اور لوگوں کی مدد  کرنا اسے بہت پسند تھا۔عاصم کی ان ہی باتوں کی وجہ سے اسے اس کے اسکول اور گلی میں سب ہی پسند کرتے۔ عاصم کے کئی دوست بن گئےتھے مگر وجاہت کی دوستی عاصم سے پکی تھی۔  وجاہت ایک دن اپنے ابو سےعاصم کی ذہانت اور بہادری کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ابوعاصم اب میرابہترین دوست ہے سب ہی اس سے دوستی کرنا چاہتے ہیں۔ بیٹا حوصلہ مند اور بہادر جہاں بھی جاتا ہے اپنے لیے جگہ پیداکرلیتا ہے مستقل مزاجی انسان کو ہمیشہ کامیابی کے قریب لے جاتی ہے جب ہی تو کہا جاتا ہے کے "ثابت قدم کو سب جگہ تھاؤں"۔ وجاہت کے ا بو نے مسکراتے ہوئے کہا اور وجاہت عاصم کی دو ستی پر فخر محسوس کرنے لگا۔

دنیا کو تبدیل نہ کریں (Duniya ko Tabdeel na Karein)

تصویر
  دنیا کو تبدیل نہ کریں ایک زمانے میں ، ایک بادشاہ تھا جو خوشحال ملک پر حکومت کرتا تھا۔ ایک دن ، وہ اپنے ملک کے دور دراز علاقوں کے دورے پر گیا۔ جب وہ وہ اپنے محل میں واپس آیا تو ، اس نے شکایت کی کہ اس کے پاؤں میں تکلیف ہو رہی ہے ، کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب وہ اتنے لمبے سفر کے لئے گیا تھا ، اور سڑک  سے گزرنا نہایت ہی مشکل تھا۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ لوگ ملک کی ہر سڑک کو چمڑے سے ڈھانپیں۔ یقینی طور پر ، اس میں ہزاروں گایوں کی جلد کی ضرورت ہوگی ، اور اس کی قیمت بھی بہت ہوگی تب اس کے ایک عقلمند نوکر نے ہمت کر کے بادشاہ سے کہا ، کیوں؟  آپ غیر ضروری رقم کو خرچ کر رہے ہیں؟  اپنے پیروں کو ڈھانپنے کے لئے چمڑے کے ایک"جوتا" چھوٹے سے ٹکڑے سے بن والیں؟  بادشاہ حیرت زدہ تھا ، لیکن اس کے بعد ، اس کی تجویز پر راضی ہوگیا ۔ حقیقت میں اس کہانی میں زندگی کا ایک قیمتی سبق ہے دنیا جینے کے لئے خوش کن مقام ہے ، آپ خود کو بہتر طور پر بدلیں لیکن دنیا کو نہیں۔

بے ہنرلوگوں کے درمیان کم ہنر رکھنے والے کو اہمیت دینا (Be Hunar Logun Ke Darmiyan Kam Hunar Rakhne Wale Ko Ehmiyat Dena)

تصویر
  بے ہنرلوگوں کے درمیان کم ہنر رکھنے والے کو اہمیت دینا  گاؤں" شکار پور" میں کوئی بھی ڈاکٹر نہ تھا۔ لوگ جب بیمار پڑتے تو گاؤں سے اسپتال میں جا کر علاج کراتے۔ ایک دن گاؤں کے لوگوں نے سوچا کہ جس اسپتال میں وہ علاج کراتے ہیں وہاں سے کسی ڈاکڑ کو اپنے گاؤں لانے پر راضی کرتے ہیں ۔ یہ سوچ کر گاؤں کے کچھ لوگوں نے اسپتال میں ایک ڈاکٹر سے درخواست کی کہ وہ ان کے گاؤں میں آجائے تا کہ لوگوں کو وقت پر علاج میسر آجائے لیکن اس ڈاکٹر نے صاف انکار کر دیا۔ اسپتال میں ایک کمپاؤنڈر جو بہت سی چالاک تھا اس نے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ وہ ان کے گاؤں چل کر ایک کلینک کھول سکتا ہے اس طرح گاؤں کے لوگوں کو وقت پرعلاج میسر آجائے گا اور وہ اتنی دور آنے سے بچ جائیں گے ۔ کمپاؤنڈر بہت لالچی تھا اس نے سوچا تھا کہ چونکہ کوئی ڈاکٹر اس گاؤں میں نہیں ہے لہذا وہ خود کلینک کھول کر وہاں بیٹھ جاتا ہے اس طرح اس کا کام خوب چلے گا۔ گاؤں کے لوگوں کو اس صورت حال میں کہ جب کوئی ڈاکٹربھی ان کے گاؤں آنے پر تیار نہیں تھا یہ  کمپاؤنڈر کسی فرشتے سے کم نہیں لگا اس طرح وہ ان کے گاؤں آ گیا اور کلینک کھول کر لوگوں کا علاج کرنا شروع کر

پیاسا کوا (Piyasa Kawwa)

تصویر
 پیاسا کوا ایک دن ، ایک پیاسے کوا نے پانی کی تلاش میں پورے میدان میں اڑان بھری۔ ایک لمبے عرصے تک ، اسے کچھ نہیں مل سکا۔ اسے بہت کمزوری محسوس ہوئی   اچانک ، اس نے اپنے نیچے پانی کا گھڑا دیکھا۔ وہ سیدھے نیچے اُترا -  اس کے اندر پانی تھا کوے نے اپنے سر کوگھڑا میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ افسوس کی بات ہے ، وہ کر نہیں پایا   گھڑا بہت تنگ تھا۔ تب اس نے گھڑاکو نیچے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی پانی باہر بہنےلگا اسے پتہ چلا کہ جگہ بہت زیادہ ہے۔ کوا نے کچھ دیر خوب سوچا۔ پھر اس نے اپنے آس پاس دیکھتے ہوئے ، اسے کچھ کنکر دیکھ کر خیال آیا۔ اس نے کنکراٹھانا شروع کیے ایک ایک کر کے کنکریاں کو ، ایک جگہ کرتی گئی ۔ زیادہ سے زیادہ  کنکروں سے جگہ بھردی ، پانی کی سطح بڑھتی چلی گئی۔ جلد ہی یہ اونچی ہو گئی   اس کی منصوبہ بندی نے کام کیا- کوے نے پا نی پیا  اگر آپ کافی کوشش کرتے ہیں تو ، آپ کو جلد ہی آپ کا صلہ مل سکتا ہے

مسافراور چنار کا درخت (Musafir Or Chinaar Ka Darakht)

تصویر
مسافراور چنار کا درخت ایک دن موسم گرما میں  دو آدمی ساتھ چل رہے تھے۔ جلد ہی گرمی بہت بڑھ گئی قریب ہی چنار کا ایک درخت دیکھ کر ، اس کے سائے میں آرام کرنے کے لئے دونوں درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ شاخوں کی طرف نگاہ ڈال کر ایک شخص نے دوسرے  شخص سے کہا: کیا بیکار درخت ہے یہ ؟   اس میں پھل یا میوےکچھ  بھی نہیں ہیں جسے ہم کھا سکیں یہاں تک کہ اس کی لکڑی کو کسی بھی چیز کے استعمال میں نہیں لے سکتے       "!درخت نے جواب میں کہا " اتنےناشکرے مت بنو  !میں آپ کیلئے اس وقت بے حد مفید  ہوں ، آپ کوسورج کی گرمی سے بچا رہا ہوں " اور آپ مجھے فضول درخت کہتے ہیں اللہ کی تمام تخلیقات کا کچھ مقصد ہے۔  :اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہےکہ ہمیں ہمیشہ اللہ کی نعمتوں کا شکرا ادا کرنا چاہئے

قیمتی پتھر(Qeemti Pathar)

تصویر
قیمتی پتھر  ایک عقلمند عورت جو پہاڑوں کے چشموں میں سفر کررہی تھی  ایک ندی میں اسےایک قیمتی پتھر ملتا ہے. اگلے دن اس کی ملاقات ایک اور مسافر سے ہوئی جو  بھوکا لگا ، اور عقلمند عورت نے اپنا کھانا بانٹنے کے لئے اپنا بیگ کھولا۔  بھوکے مسافر نے قیمتی پتھر کو دیکھا اور عورت سے بولا کہ یہ وہ اس کو دے دے. بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس نے وہ پتھر مسافر کو دے دیا۔ مسافر خوشی مناتے ہوئے چلا گیا - اور  زندگی بھر اس کی حفاظت کریگا۔ لیکن کچھ دن بعد وہ واپس لوٹ آیا- عقلمند عورت کو وہ پتھر دے دیا۔ مسافر نے کہا ، "میں جانتا ہوں کہ  یہ پتھر قیمتی ہے ، لیکن میں اس امید پر واپس دیتا ہوں کہ آپ اس کی صحیح حفاظت کرینگی

توبہ(Tuba)

تصویر
 توبہ ایک شخص نے ایک بار ایک متقی مسلمان کو یہ کہتے سنا کہ "آخری تیس برسوں سے  میں گناہ کے لئے توبہ کر رہا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کس طرح معاف کرے گا مجھے اس کے بارے میں بتائیں؟ " سننے والے نے پوچھا: "آپ کا کیا گناہ تھا؟" متقی مسلمان نے کہا: “ میری بازار میں ایک دکان تھی۔ ایک دن میں نے سنا کہ پورا بازار جل رہا ہے تو میں اپنی دکان دیکھنے کے لئے بھاگ گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میری دکان کے علاوه ساری دکانیں زمین پر مسمار ہوگئیں . میں نے کہا "الحمدالله " (تمام تعریف اللہ کی) ہےلیکن فوراً ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ جب میں ہوں تو اپنے آپ کو مسلمان کیسے کہہ سکتا ہوں میرے پڑوسیوں کے نقصان کو محسوس نہیں کر سکتے ہوں؟ اس لیے  میں توبہ کر رہا ہوں یہ پچھلے تیس سالوں سے میری  متوجہ ہے ۔

پرانا قبرستان(Porana Qabrustan)

تصویر
  پرانا قبرستان ایک دن ، اکبر نے اپنے دوستوں سے کہا: "اگر میں مر گیا تو مجھے بوڑھے  قبرستان میں دفن کرنا  "کیوں ، اس کے دوستوں نے پوچھا۔ "کیونکہ" ، اس نے وضاحت کی ، "اگر فرشتے آ ئے ، میں انھیں بتاؤں گا کہ میں سالوں پہلے ہی مر گیا تھا اور میری پہلے سے پوچھ گچھ ہو گئی ہے اور پھر وہ جس طرح آئے تھے واپس چلےجائیں گے۔

غلطیوں سے سیکھیں(Ghaltiyun se Sikhein)

تصویر
 غلطیوں سے سیکھیں تھامس ایڈیسن نےکی ایک تلاش  تنت  میں دو ہزار مختلف مواد کی کوشش کی لائٹ بلب کے لئے . جب کسی نے بھی اطمینان بخش کام نہیں کیا تو ، اس کے مدد گار نےشکایت کی ، ہمارے تمام کام بیکار ہیں۔ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ ایڈیسن نے نہایت پُر اعتماد انداز میں جواب دیا ،" اوہ ، ہم بہت آگے آچکے ہیں" اور ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ یہاں دو ہزار عناصر موجود ہیں جن کو ہم اچھے لائٹ بلب بنانے کے لئے استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔

بندر اور ڈولفن (Bandar or Dolphin)

تصویر
  بندر اور ڈولفن ایک دن پہلے ، کچھ ملاح اپنے جہاز میں سمندر کے لئے نکلے تھے۔ ایک طویل سفر کے لئے اپنے پالتو بندر کو ساتھ لے کر آئے  جب وہ سمندر سے باہر تھے تو ایک خوفناک طوفان نے انہیں الٹ ڈالا ہر ایک جہاز سے سمندر میں گر گیا ، اور بندر کو یقین تھا کہ وہ گرے گااچانک ڈولفن نمودار ہوئی اور ا س نے بندر کو اٹھایا۔ وہ جلد ہی جزیرے پر پہنچے اور بندراترا ڈالفن نے بندر سے پوچھا ، "کیا آپ کو یہ جگہ معلوم ہے؟ بندر نے جواب دیا ، ہاں ، میں جانتا ہوں۔ در حقیقت ، جزیرے کا بادشاہ میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں ایک شہزادہ ہوں؟ ”یہ جانتے ہوئے کہ جزیرے پر کوئی نہیں رہتا ہے ، ڈولفن نے کہا ،" ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے! ، سو آپ ایک شہزادہ ہیں! اب آپ بادشاہ بھی بن سکتے ہیں بندر نے پوچھا ، میں بادشاہ کیسے بن سکتا ہوں؟ جب ڈولفن نے تیرنا شروع کیا تو اس نے جواب دیا ، یہ آسان ہے۔ چونکہ اب آپ اس جزیرے پر آپ واحد مخلوق ہیں ، آپ فطری طور پر ایک بادشاہ ہوجائیں گے جھوٹ بولنے اور فخر کرنے والے مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔

ریت اور پتھر(Raet or Phattar)

تصویر
  ریت اور پتھر ایک کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دودوست صحرامیں سے گزر رہے تھے۔ دوران سفر کے کچھ مقام پر بحث ہوئی،اورایک دوست نے دوسرے دوست کوتھپڑ مارا دوسرے چہرہ تھپڑ لگنے سے زخمی ہوا،لیکن اس نے بغیر کچھ بھی کہہ،ریت میں لکھا:"آج میرے بہترین دوست   نے میر ے   چہرے پر تھپڑ مار ا   وہ چلتے رہے یہاں تک کہ انہیں نخلستان نہ ملے  جہاں انہوں نے فیصلہ کیا نہانا. وہ ، جسے تھپڑ مارا گیا تھا،وہ دلدل میں پھنس گیا اور ڈوبنے لگا ، لیکن دوست نے اسے بچایا۔ قریب قریب ڈوبنے سے دوست کے ٹھیک ہونے کے بعد ، اس نے ایک پتھر پر لکھا: "آج ہی میرے بہترین دوست نے میری زندگی کو بچایا۔ " جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور اپنے بہترین دوست کو بچایا تھا اس نے اس سے پوچھا  میں نے تمہیں تکلیف دینے کے بعد ، تم نے ریت میں لکھا اور اب ، تم پتھر پر لکھتے ہو  کیوں؟ دوسرے دوست نے جواب دیا: "جب کوئی ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے تو ہمیں اسے ریت پر لکھنا چاہئے نیچے ریت میں جہاں معافی کی ہوائیں اسے مٹا سکتی ہیں۔ لیکن ، جب کوئی ہمارے لئے کچھ اچھا کرتا ہے ، ہمیں اسے پتھر میں کندہ کرنا ہوگا کوئی ہوا کبھی اسے مٹانہیں سکتی۔  

کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا ( Kam Himmat ka Apny Ilaqey mai Bahadur Ban Jana )

تصویر
  کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا  راحیل میاں سیدھے سادھے تھے اور بڑے ہی بھولے بھالے سے بچے تھے۔ آٹھویں کلاس میں پڑھتے لیکن اپنی معصومانہ باتوں کی وجہ سے یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی چوتھی کلاس ہی میں ہوں ۔ راحیل میاں کے سا دے پن کی وجہ سے بہت سے بچے اس سے شرارت کرتے اور کلاس میں ا اسے تنگ کرتے کئی بار تو اسکول کے میدان میں کھیلتے ہوئے کچھ شرارتی بچے اسے دھکا بھی دے دیتے مگر وہ ان سے کچھ بھی نہیں بول پاتا بلکہ گھر آ کر اپنی امی سے کہتا کہ اسے بچے تنگ کرتے ہیں ان بچوں کی شکایت کرتا ۔ راحیل کے امی ابو کوبھی راحیل کے بھولے پن کا معلوم تھا۔ وہ اسے سمجھادیتے اورراحیل میاں یوں سر ہلاتے جیسے انہیں سب کچھ سمجھ میں آ گیا ہو ۔ راحیل کا کئی بار تو دل چاہتا کہ وہ ان شرارتی بچوں کی خوب ٹھکائی لگائے لیکن وہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ گھر سے اسکول بہت دور ہے اگر یہاں وہ کسی سے لڑ ئی کرے گا تو پھر سارے شرارتی بچے ایک ہو جائیں گے اور الٹا اسے ہی ماریں گے ۔  ایک دن راحیل چھٹی والے دن اپنی گلی میں کھیل رہاتھا کہ اس کی نظر اپنے اسکول کے اس شرارتی لڑکے پر پڑی جو راحیل  کو اسکول میں بہت تنگ کرتاتھا اور ک

بہت زیادہ غصہ کرنا (Buhat Ziada Gusa Karna)

تصویر
  بہت زیادہ غصہ کرنا  آدمی کے پاس اگر اپنی ذاتی سواری نہ ہو تو وہ بے چارہ بس  اور رکشے کےچکرمیں پریشان  ہوتا رہتا ہے۔ وہاب صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ تھا۔ ان کے پاس ایک بہت پرانی سی گاڑی تو تھی مگر اب کئی دنوں سے وہ خراب پڑی تھی اس میں چونکہ کام بھی بہت تھا  لہذاوہاب صاحب نے گاڑی ایسے ہی رہنے دی ۔ وہ روز بس کے ذریعے آفس پہنچتے کبھی تو وقت پر پہنچ جاتے اور بھی دیر سے۔  ایک دن  وہاب  صاحب کے افسر نے کسی دوسری کمپنی کے افسران کو اپنے آفس میں ایک انتہائی اہم مسئلہ پر گفتگو کرنے کے لئے بلایا اور وہاب  صاحب کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ شہر کے باہر سے آنے والے افسران کو اپنی کمپنی کے کام کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کریں گےاور وقت سے پہلے پہنچ کر آفس میں چائے وغیرہ کا بھی انتظام کریں گے۔   وہاب  صاحب آفس جلدی پہنچنے کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے کپڑے استری کے لئے نکالے تو اچانک لائٹ ہی چلی گئی اب تو وہ گھبرائے کہ پتہ نہیں لائٹ کب آئے گی اور انہیں آفس پہنچنے میں دیر ہو جائے ، خداخدا کر کے لائٹ آئی تو انہوں نے جلدی جلدی کپڑے استری کیے اور آفس جانے کے لئے روانہ ہو گئے۔  وہ بہت دیر