اشاعتیں

phrases لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جنگل کا شیرjungle ka sheair

تصویر
جنگل کا شیر  جنگل کا شیراپنے شیر ہونے پر بڑا فخر محسوس کرتا تھا۔ جانوروں کو روک روک کر پوچھتا’ بولو! جنگل کا بادشاہ کون ہے؟‘‘ سب جانور یہی جواب دیتے ’’ جناب آپ ہی ہیں‘‘ شیر یہ سن کر خوب خوش ہوتا ۔ ایک دن شیر کی شامت آ ئی جواس نے ہاتھی کو روک کر پو چھا’ بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟‘ہاتھی نے جوشاید پہلے ہی سے غصے میں تھا اپنی سونڈ میں شیر کو لپیٹ کر اس زور سے زمین پر پٹخا بے چارہ شیرا پنی کمرسہلا تا رہ گیا اور پھر کہنے لگا’ ہا تھی بھائی اگر آپ کومعلوم نہ تھا تو نہ بتاتے مگر اس مذاق کی کیا ضرورت تھی ‘۔  ہا تھی نے ایک بار پھر چاہا کہ شیر کواٹھا کر پٹخ دے مگر شیر دم دبا کر وہاں سے بھاگا اور دور کھڑا ہوکر حیرت سے ہاتھی کو دیکھنے لگا اورسوچنے لگا کہ جس طرح ہاتھی نے اسے اٹھا کر پھینکا اس طرح تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاجس بات پر شیرہی کوکیاکسی کوبھی اعتراض ہوسکتاتھامگروہ کا م شیر کے سامنے ہو گیا۔ ہاتھی نے شیر کو اس زور سے پٹخا تھا کہ بیچارے شیر کی ساری بہادری دھری کی دھری ره گئی۔  

poem bird

تصویر
پرندے  پرندے چہچہاتے پھررہے ہیں  سحر کے گیت گاتے پھر رہے ہیں  فضاؤں میں سفرجاری ہے اُن کا  پیروں کو پھڑپھڑائے پھر رہے ہیں  جما تے پھر رہے ہیں رنگ ہر سو  بڑی موجیں اڑاتے پھر رہے ہیں  کبھی پھولوں کو آکر چھو دیتے ہیں  کبھی پتے ہلاتے پھر رہے ہیں  کرن اُٹھو ا ور اُٹھ  کر تم بھی دیکھو یہ ہم سب کو جگا تے پھر رہے ہیں

informative post 3

تصویر
  سوال: زمین کا مرکز کس جگہ واقع ہے ؟ اس کا فاصلہ خط استوا سے زیادہ ہے یا قطبین سے ؟  جواب: ہماری زمین کا مرکز خط استوا ، خط سرطان ، خط جدی سب قرضی چیزیں ہیں ، جو ہم نے اپنی آسانی کے لیے فرض کرلی ہیں ۔ زمین نارنگی کی طرح چپٹی ہے گول ہے۔ یہ ایک کُرہ ہے اور اس کے اندر وہ قرضی نقطہ جو بالکل اُس کے مرکز یا بیچ میں تصوّر کیا جا سکتا ہے، اس کامرکز کہلاتا ہے ۔ یہ کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے جسے آپ جاکر دیکھ سکیں یا چھو سکیں ۔ یہ ایک فرضی نقطہ ہے۔ خط استواسے زمین کا قطر۴ ۱۲۷۴ کلومیٹر ہے اور چوںکہ زمین قطبین پر نارنگی کی طرح سے چپٹی ہے، اور اس لیے قطبین سے اُس کا قطر کچھ کم ہے یعنی مرکز استواسے دُور ہے اور قطبین  سے  ذرا قریب

informative post 2

تصویر
  سوال : گیس کا وزن کتنا ہو تا ہے ؟ ایک عام گھریلو سلنڈر میں کتنے فیٹ گیس آتی ہے؟   جواب : آپ سوئی گیس کے سلنڈر کے متعلق پوچھ رہے ہیں جو ہم کھانا پکانے کے لیے باورچی خانے میں استعمال کرتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ اس سلنڈر میں گیس نہیں ہوتی بلکہ گیس کا مائع ہوتا ہے یعنی پلانٹ پر جلانے والی گیس کو مائع میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ وہ مائع اس سلنڈر میں بھر دیا جا تا ہے اور جیسے ہی ہم اس کا پنیچ کھولتے ہیں ،یہ مائع پھر گیس میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔ یہ سلنڈر چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی کسی کا وزن ۲۵ کلو ہوتا ہے اور کسی کا زیادہ ، سب برابر نہیں ہوتے ۔

زندگی عارضی ہے zindagi arzi hai

تصویر
  زندگی عارضی ہے  عزیز بڑاہی لا لچی شخص تھا۔ ہر وقت دولت کمانے کی دُھن اس کے سر پر سوار رہتی ، اور اس کے لیے وہ ہر جائز اور نا جائز طریقہ کواپنانے کو تیار تھا۔ عزیز غیرملکی کرنسی (ر قم ) کا کاروبار کرتا تھا۔ ایک بار بازار میں ڈالر کے ریٹ کم ہوۓ تو عزیز نے بہت سے ڈالرزخرید لیے ۔ عزیز کا خیال تھا کہ ڈالر کے ریٹ ایک دم سے بڑھیں گے لہذا وہ کئی سوڈ الرخرید کر ڈالر کے ریٹ چڑھنے کا انتظار کر نے لگا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ڈالر کے ریٹ چڑھنے کے بجاۓ مزید کم ہو گئے اور اس طرح عزیز نے جو ڈالر مہنگے داموں خریدے تھے اس میں اسے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ بھائی عزیز تم نے لالچ کی ہی کیوں؟ اس کے ساتھی نے اس سے پوچھا۔" میرا خیال تھا کہ ڈالر کے ریٹ بڑھیں گے تو مجھے زیادہ منافع ہوگا اس لیے "۔ عزیز نے بولا۔ بھائی لالچ کبھی بھی نہیں کرنا چاہئے پیسہ تو جتنا آ ئے کم لگتا ہے آ خرقناعت بھی تو کوئی چیز ہے  اس کی زندگی کا کیا بھروسہ آخر زیادہ دولت کما کر کیا کروگے؟ ،اس کے سا تھی نے کہا اور پھر چلا گیا۔ عزیز سوچ رہا تھا کہ لالچ کرنے کی وجہ سے اسے بڑابھاری نقصان اٹھانا پڑ گیا۔

ووٹ Vote

تصویر
  ووٹ  انتخابات کی تاریخ کا کیا اعلان ہوا لگتا تھا کہ ہر طرف ہمدردوں کی لائن سی  لگ گئی ہو ۔ جوامید وار ا لیکشن میں کھڑے ہوۓ وہ تو اپنی ہمدردی دکھا رہے تھے ۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے دوست احباب بھی ہمدردی دیکھنے میں کسی سے کم نہیں تھے ۔ کوئی کہتا کہ میں علاقے کے" سارے مسائل حل کردوں گا" کوئی اعلان کرتا کہ" بجلی بار بارنہیں جاۓ گی"،کوئی کہتا کہ "تعلیم مفت ہو جاۓ گی-" غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔" کریم صاحب اس بار کسے ووٹ دینے کا ارادہ ہے؟" رحیم صاحب نے گلی کےکونے پرکھڑے کریم صاحب سے ان کی راۓ پوچھی ۔ "ارے بھائی!! میں جسے بھی ووٹ دوں وہ تھالی کا بیگن نکلتا ہے ، ووٹ لیتے وقت کسی پارٹی میں ہوتا ہے اور ووٹ لینے کے بعد دوسری پارٹی میں امید واربھی اچھے خاصے غیرمستقل مزاج ہوتے ہیں ،لا لچ کے باعث کبھی کسی طرف اور کبھی کسی طرف چلے جاتے ہیں" کریم صاحب نے اچھی خاصی تقریر کر ڈالی اور رحیم صاحب کریم صاحب کا گرم موڈ دیکھ کر چپکے سے وہاں سے مسکراتے ہوۓ چل دیے۔

پڑوسن کا بچہ Paroosan Ka Bacha

تصویر
  پڑوسن کا بچہ  بڑاہی ہونہار نکلے گا یہ ۔ خالہ بی نے اپنی پڑوسن کے گھر پیدا ہونے  والے بچے کو گود میں لیتے ہوئے پیار کرتے ہوۓ کہا۔ "آپ کو کیسے پتہ خالہ بی؟" پڑوسن نے پوچھا۔ " لو،ارے بھئی ! بچپن ہی سے برے یا بھلے کے آثار معلوم ہو جاتے ہیں "۔ خالہ بی نے بچے کوایک بار پھر پیار کر تے ہوۓ کہا۔" خالہ بی بس دعا کریں کہ الله اسے نیک اور بڑا آ دی بناۓ"۔ پڑوسن نے کہا۔ ہاں... ہاں کیوں نہیں ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں جن بچوں کی پرورش اور تربیت اچھی ہوگی وہ ایک دن اپنے ماں باپ کا نام ضرور روشن کر تے ہیں۔خالہ بی نے کہا اور اپنے گھر چلی گئیں۔

جو مدد کرے ا سی کو دھوکہ دینا Jo Madad Kare Ussi ko Dhoka Dena

تصویر
 جو مدد کرے ا سی کو دھوکہ دینا    سیٹھ عارف کو الله نے خوب دولت سے نوازا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بڑے رحم دل بھی تھے ۔ ایک دفعہ وہ اپنی گاڑی میں کہیں جارہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک لڑکا بھیک مانگتا ہوا نظر آیا انہوں نے اس لڑکے کو روک کر پوچھا "تم تو ٹھیک ٹھاک ہو کام کیوں نہیں کرتے؟"۔ صاحب کام ملتا نہیں ہے"۔ لڑکے نے کہا۔"  اگر میں تمہیں کام دوں تو ؟ سیٹھ عارف نے اس سے پو چھا ۔ " آپ کاشکر گزار ہوں گا"۔ لڑکے نے کہا اور پھرسیٹھ عارف اسے اپنے گھر لے آۓ اوراپنے لان میں اسے پودوں کو پانی دینے کے کام پر لگادیا۔ دن گزرتے رہے ایک دن سیٹھ عارف کو پتہ چلا کہ وہ نوجوان ان کے بنگلے سے چوری کر کے بھاگ گیا ہے ۔سیٹھ عارف کو اس بات کا بڑا دُکھ ہوا وہ تو اس لڑکے کو ایک اچھا انسان بنانا چاہتے تھے مگر وہ انہی کو دھوکہ دے گیا۔ وہ سوچنے لگے کہ د نیا میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کو جس سے فا ئد ہ ہو وہ اس کے ساتھ بُرا سلوک کریں اور فائدہ پہنچانے والے ہی کو نقصان پہنچائیں۔

مصر کا ایک بُت Misaar Ka Ek Bott

تصویر
مصر کا ایک بُت اہرام مصرمیں ایک بڑا بُت ہے جس کا سرانسان کا اور دھڑ شیر کا ہے ۔ اس کی لمبائی 66 گز اور اونچائی 24 گز ہے ۔ اسے دیکھ کر بڑا لگتا ہے، اسی لیے اسے ابوالہول کہتے ہیں۔ یعنی خوف والا ۔ یہ بُت غزہ کے قریب ایک بڑی چٹان تراش کر بنایا گیا ہے۔ پہلے اس کا صرف سرنظر آتا تھا۔ پھر مصر کے محکمہ آثار قدیمہ نے 1817ء میں یہاں کھدائی کی۔ صدیوں کی بیٹھی ہوئی مٹی اور ریت ہٹائی گئی تویہ پورا  بُت نظر آیا۔ اس کی داڑھی اور ناک ٹوٹ چکی ہے جس میں سے وہ اور بھی خوف ناک نظر آتا ہے ۔ اس  بُت کی کہانی میں ہے کہ یہ ایک جن تھا اور مختلف شکلیں بدلتا رہتا تھا۔ یہ لوگوں سے بڑے بڑے سوال کرکے پریشان کیا کرتا تھا۔ اور اگر وہ اس کے سوالوں کے جواب نہ دیتے تو انہیں کھاجاتا تھا۔ اس کا سب سے اہم سوال یہ تھا کہ وہ کون سا جانور ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے، دو پہر کو دو ٹانگوں پر اور شام تین ٹانگوں پر چلتا ہے ۔ ایک شخص نے اس کے سوالوں کا جواب دے دیا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ وہ انسان ہے جو بچپن میں چار ہاتھ پاؤں سے چلتا ہےجوانی میں دو ٹانگوں پراور بڑھاپے میں دو ٹانگوں اور ایک لا ٹھی کے سہارے چلتا ہے اس کے بعد یہ

Informative Post 1

تصویر
  سوال: سورج یا تیز روشنی پر کچھ دیر نظررکھنے کے بعد ہمیں چاروں طرف اندھیرا کیوں نظر آتا ہے؟    جواب : ہماری آنکھ کی پتلی میں قدرتی طور پر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ تیز روشنی میں سکڑ جاتی ہے تا کہ آنکھ میں زیادہ روشنی داخل نہ ہو اور اسے نقصان نہ پہنچے ۔ اندھیرے میں ہماری پتلی کچھ پھیل جاتی ہے تا کہ آنکھ میں زیادہ روشنی داخل ہو سکے اور ہم اندھیرے میں بھی چاروں طرف کی چیزیں دیکھ سکیں ۔ جب آپ سورج پر نظر ڈالتے ہیں ۔" ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے" یا کسی تیز روشنی کو کچھ دیر دیکھ کر نظر ہٹاتے ہیں تو آپ کی آنکھ کی پتلی خاصی سکڑ چکی ہوتی ہے اور آپ کو چاروں طرف اندھیرا جیسا نظر آتا ہے ۔ جب تیز روشنی کا اثر ختم ہو جا تا ہے اور پتلی اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے تو پھر آپ پہلے کی طرح دیکھنے لگتے ہیں۔

جلدی غصہ آنا Jaldi Gussa ana

تصویر
  جلدی غصہ آنا  بات بات پر لڑ نا اور غصے ہونا اچھا نہیں ، اسکول سے تمہاری شکایات بہت آ رہی ہیں کہ تم بچوں سے لڑتے ہو." جمیل کے ابو نے رات کے کھانے کے بعد جمیل سے اس کے کمرے میں بات کرتے ہوۓ کہا۔ "ابو میں کیا کروں ، مجھے بہت جلدی غصہ آ جا تا ہے " جمیل نے اعتراف کرتے ہوۓ کہا۔ "بیٹا غصہ کرنا بہت بری عادت ہے ،اپنی اس عادت کو بد لو غصہ اور تیز مزاجی سب کو د شمن ، جبکہ میٹھے بول اور اخلاق سے پر گفتگو سب کو دوست بناتی ہے ، ہمیشہ یادرکھو بیٹا کہ ’زبان شیریں ملک گیری ، زبان ٹیڑھی ملک بانکا‘۔ جمیل کے ابو نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا اور پھرجمیل نے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ غصہ نہیں کرے گا اور سب سے پیار کرے گا تا کہ سب اس کے دوست بن جائیں۔ اس دن کے بعد واقعی جمیل نے اپنے آپ کو بدل لیا ۔ اب وہ سب سے محبت سے بات کر تا ۔ جلد ہی جمیل نے محسوس کیا کہ اس کے محبت سے بات کر نے کی وجہ سے لوگ خوداس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور ہرکوئی اس سے دوستی کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔

رحم دل انسان Reham Dil Insan

تصویر
رحم دل انسان  گاؤں راجن پور کے لوگ گاؤں کے چوہدری سے بڑے پریشان تھے۔ چوہدری کو صرف اپنی جیب بھرنے کا خیال رہتاوہ گاؤں کے لوگوں کی ذرا بھی پروا نہیں کر تا تھا اور نہ ہی ان کے دکھ سکھ  میں کام آتا۔ گاؤں کے چوہدری کا ایک ہی بیٹا تھا۔ اس کا نام عادل تھا ۔ عادل باہر ملک سے پڑھ کر آیا تھا اوراس کا مزاج اپنے والد سے بالکل مختلف تھا۔ عادل دوسروں کے دکھ سکھ میں کام آنے والا اور محبت کرنے والا شخص تھا ۔ گاؤں کے لوگ فرصت کے لمحات میں چو ہدری کے متعلق باتیں کرتے "بھلا یہ بھی کوئی انسانیت ہے اپنا پیٹ تو کتا بھی پا لتا ہے بات تو جب ہے کہ چوہدری سب کا خیال رکھے" ایک بزرگ نے ذرا غصے سے کہا۔ وقت گزرتا گیا اور پھرایک دن چوہدری کا انتقال ہوگیا۔ گاؤں کے لوگوں کو چو ہدری کے مرنے کاغم نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ چوہدری کی جگہ اب اس کے بیٹے نے سنبھال لی تھی جو کہ سب کی خبر گیری رکھنے اور محبت کرنے والاشخص تھا۔ گاؤں کے لوگ اب خوش تھے کیوں کہ اب ان کے گاؤں کا چوہدری کوئی ظالم نہیں بلکہ ایک رحم دل انسان تھا۔

کبھی ما یوس نا ہوں Kabhi Mayoos Na Hon

تصویر
کبھی مایوس نا ہوں شمیم باجی اچانک اتنی بیمار ہوئیں کہ انہیں ہسپتال میں داخل کرانا پڑ گیا۔ سارے رشتہ دار انہیں دیکھنے کے لئے ہسپتال آرہے تھے ۔ شمیم باجی کے زیادہ تر رشتہ دار شہر سے دور رہتے تھے ۔ لیکن جیسے جیسے جس کو بھی اطلاع ملی- وہ شمیم باجی کی خیریت معلوم کرنے چلا آیا۔ شمیم باجی بہت محبت والی خاتون تھیں سب سے ہنس کر ملنا ان کی عادت کا حصہ تھا۔ ان کی بیماری کچھ اس نوعیت کی تھی کہ وہ بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں موجود تھیں اور زندگی کی امید بہت کم تھی مگر مرتے دم تک آ خر زندگی کی امید تو لگی رہتی ہے’’جب تک سانس تب تک آ س‘‘ شمیم باجی کے لئے سب ہی دعائیں کر ر ہے تھے۔ ان کے بھائی ہسپتال میں ہر وقت موجود رہے کہ نہ جانے کب کس وقت کس چیز کی ضرورت پیش آ جاۓ ۔ چند دنوں بعد شمیم باجی کی حالت پہلے سے کچھ بہتر ہونے لگی اور پھر وہ اپنے گھر واپس آ گئیں گھر پرشمیم باجی کے بیٹوں اوران کے شوہر نے ان کا خوب خیال رکھا اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگیں۔ سچ ہے زندگی کے ساتھ دکھ سکھ لگے رہتے ہیں۔ ہمارا کام تو صرف یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے دکھ کے دور ہونے اور سکھ کے رہنے کی دعا کریں۔ 

دوستی او تعلق بڑھانا Dosti Or Talooq Bharhana

تصویر
   دوستی او ر  تعلق بڑھانا  بارش بڑے زور سے ہورہی تھی ۔ ذین اپنے گھر جانے کے لیے ایک درخت کے نیچے کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک کار ذین کے پاس آکر رکی " ارے بھئی! آؤ میں تمہیں چھوڑ دوں"۔ کار والے نے ذین کو درخت کے نیچے کھڑے دیکھ کر کہا۔ "کون ہیں آپ ؟"  ذین نے حیرت سے پوچھا۔ "مجھے نہیں جانتے؟ میں تمہارے ابو کا دوست ہوں ، ایک بارتم سے ملاقات بھی ہوچکی ہے ، اب آ ؤ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ جاؤ ورنہ یہ بارش اب تھمنے والی نہیں"۔ کار والے نے کہا اتنے میں ذین کے گھر جانے والی بس بھی آ گئی اورذین بس میں سوار ہو گیا ۔ "ابو وه شخص کہہ رہا تھا کہ میں تمہارے ابو کا دوست ہوں ، جب کہ میں نے اسے آج تک نہیں دیکھا"۔ ذین نے گھر پہنچتے ہی اپنے ابو سے کہا۔ بیٹا کبھی بھی کسی انجان آ دمی کے ساتھ نہیں جا نا چاہئے، بہت سے لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ دوستی اورتعلق جتاتے ہیں - ذین کے ابو نےذین کو سجھاتے ہوۓ کہا اور ذین نے بھی وعدہ کیا کہ وہ بھی کسی ایسے شخص کے ساتھ نہیں جاۓ گا جسے وہ جانتا نہ ہو۔

ڈاکٹرعلی کا کلینک Doctor Ali Ka Clinic

تصویر
 ڈاکٹرعلی کا کلینک  موسم کیا بدلا بیماریوں نے جیسے سب ہی کا گھر د یکھ لیا ہو۔ ڈاکٹروں کی کلینک پر مریضوں کی لمبی چوڑی لائن لگی رہتی تھی ۔ بخار، نزلہ،سردرد اور ملیریا جیسی بیماریاں عام ہو چکی تھیں ۔ ڈاکٹر علی کی کلینک محمودہ آباد میں تھی ۔ ان کی کلینک پر بھی خوب رش لگارہتا تھا ۔ مریضوں کی قطار کلینک کے باہر تک نظر آتی ۔ ایسا لگتا تھا لوگ دوا لینے نہیں بلکہ کسی سبیل پرشربت لینے کے لیے کھڑے ہوں ۔ "ڈاکٹر صاحب میرا بخار تواترنے کا نام ہی نہیں لیتا"۔ ایک مریض نے ڈاکٹرعلی سے اپنے بخار نہ اترنے کی شکایت کرتے ہوۓ کہا۔ جناب آپ کوملیریا ہوا ہے، کچھ وقت تو لگے گا بخاراتر نے میں اور ویسے بھی بیماری کے متعلق کہا جا تا ہے کہ ’’ آتی ہے ہاتھی کے پاؤں اور جاتی ہے چیونٹی کے پاؤں‘‘۔ ڈاکٹر علی نے مریض کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا اور مریض دوا لے کر اللہ میاں سے اپنی بیماری کے خاتمے کی دعا کرتے ہوۓ اپنے گھر روانہ ہو گیا۔

وقت ضائع کرنا Waqt Zaya Karna

تصویر
 وقت ضائع کرنا  رمیض بیٹا تمہارے ٹیسٹ شروع ہور ہے ہیں ، پڑھائی میں دل لگا لو۔ رمیض کی امی نے  رمیض کو کمپیوٹر پر گیم کھیلتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔ "اچھا امی ابھی تھوڑی دیر میں پڑھتا ہوں"۔ رمیض نےکہا اور پھر گیم کھیلنےمیں لگ گیا ۔  رمیض کےٹیسٹ شروع ہوۓ اور پھر ایک ہفتے میں ختم بھی ہو گئے مگر جب ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ  رمیض تین مضامین میں فیل ہے ۔ اب تو رمیض بڑا ہی اُداس اوررو نےدھونے  لگا  ۔ "رونے کا اب کیا فائدہ جب موقع تھا پڑھائی کا تو تم نے پڑھانہیں اب پچتانے کا فائدہ ؟"  رمیض کو احساس ہوا کہ واقعی اس نے بڑی غلطی کی ہے جب ٹیسٹ شروع ہونے والے تھے تو اسے ساری توجہ اپنی پڑھائی پر ہی رکھنا تھی تا کہ وہ اچھے نمبرز حاصل کرتا مگر اس نے پڑھائی کا سارا وقت کمپیوٹر پر گیم  کھیلنے میں گزار دیا۔

شہرت زیادہ حقیقت کچھ نہیں Shohrat Ziada Haqeeqat Kuch Nhi

تصویر
 شہرت زیادہ حقیقت کچھ نہیں  ارحم کا موڈ آج بہت خراب تھا۔ اس کا قمیتی بلا جوٹوٹ گیا تھا۔ اسے دکھ اس بات کا تھا کہ آج اس کا میچ تھا اور آج ہی بلا بھی ٹوٹ گیا , ارحم نے اپنے ابو سے نیا بلا خریدنے کے لیے بازار چلنے کو کہا۔ ابو اتنی مشہور کمپنی کا بلا ٹوٹ گیا اب اس سے بہتر کمپنی تو اور نہیں "تم کس کمپنی کا بلا خریدو گے؟" ابو نے پوچھا اب ہم مشہور کمپنی کے بجائے غیر معروف کمپنی کا مگر اچھا بلا خرید یں گے ۔ اس لیے کہ مشہور کمپنی کے بیٹ کا حال تو دیکھ ہی لیا ” درشن تھوڑے نام بہت‘‘۔ ارحم نے کہا اور پھر دونوں باپ بیٹا ایک غیر معروف مگر اچھی کمپنی کا بیٹ خریدلاۓ اور پھر اس بیٹ سے ارحم  نے وہ چو کے اور چھکے لگاۓ کہ میچ دیکھنے والے بھی دیکھتے ہی رہ گئے ۔ بعض اوقات مشہور ہو جانے والی چیز میں اپنے معیار پر پورانہیں اترتیں ، شہرت زیادہ ہوتی ہے اور حقیقت کچھ  نہیں اس کے برعکس غیر معروف مگر اچھی کمپنیوں کی مصنوعات زیا دہ پائیدار ثابت ہوتی ہیں۔  

قرض Qarz

تصویر
 قرض  نعمان بھائی کا چند روز پہلے انتقال ہو چکا تھا ۔ زہیب نےنعمان بھائی سے 5000 روپے بطورقرض لیے تھے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ قرض کی رقم ان کی بیوہ کو دے دیں ۔ ایک دن انہوں نے نعمان  بھائی کی بیوہ کو قرض کی رقم لوٹا دی قرض کی رقم لوٹانے کے بعد زہیب اپنے گھر آ گئے اوراپنی بیوی سے کہنے لگے میں نےنعمان بھائی کی بیوہ کوقرض کی رقم لوٹا دی ہے، اب میں خودکو بڑاہلکا محسوس کر رہا ہوں ۔ چلو اچھا ہوا ، جس کی چیزتھی اس پر خرچ ہوگئی ، آ ج کے دورمیں اللہ کسی کا قرض اتروا دے تو بڑی نعمت ہے ۔ اب کم از کم ہمارے او پرکوئی بو جھ تو نہیں رہا زہیب کی بیوی نے کہا اورزہیب نے اپنا قرض اتر جانے پراللہ کا شکر ادا کیا۔

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے Jisse ALLAH Rakhe Usse Kon Chakhe

تصویر
 جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے  بس میں بھیٹر اس قدر تھی کہ زیان باوجود کوشش کے بس میں نہیں بیٹھ سکا۔ اسے اسکول جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی بس میں وہ بیٹھ نہیں سکا جس کا اسے بڑادکھ تھا۔ وہ پیدل ہی اسکول کی جانب روانہ ہو گیا تا کہ جتنا فاصلہ ہوسکے وہ طے کر لے اس طرح کچھ وقت بچے گا۔ ابھی  زیان تھوڑا ہی دور گیا ہوگا کہ اس نے دیکھا کہ جس بس میں وہ بیٹھ نہیں سکا تھا وہ بس ایک گہرے کھڈ میں گری ہوئی ہے اورزخمی لوگ مدد کے لیے چلا رہے ہیں ۔  زیان بھی بھاگم بھاگ دیگر لوگوں کے ہمراہ زخمیوں کو بس سے باہر نکالنے میں مدد کرنے لگا۔  زیان کو بار بار اس بات کا خیال آ رہا تھا کہ اللہ جوکر تا ہے بہتر کرتا ہے اگر وہ اس بس میں بیٹھ جاتا تو وہ خود بھی  زخمی ہوتا مگر’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔  زیان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مصروف ہو گیا۔ 

سُست انسان Soost Insan

تصویر
سُست انسان  ارے! اکرم صاحب اپنے ٹوٹے ہوۓ صحن کا فرش تو بنوالو ۔ شکیل صاحب نے اکرم صاحب کے گھر بیٹھے ہوۓ ان کے صحن کے ٹوٹے فرش کو دیکھ کر کہا۔ اکرم صاحب ذرا سُست طبیعت کے انسان تھے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ۔ یہی وجہ تھی کہ کئی دن گزرنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے گھر کے صحن کا فرش جو جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا تھانہیں بنوایا تھا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب پورا گھر بنواؤں گا تو فرش بنوالوں گا۔ اکرم صاحب نے کہا۔ یہ کیا بات ہوئی ، پورا گھر بنوانے کے لیے تو بڑی رقم کی ضرورت ہے اور تمہارے پاس اتنی رقم ہے نہیں ،اب اتنے سے کام کوکروانے کے لیے تم بڑے کام کے انتظار میں ہو جس کا دور دور تک امکان بھی نہیں ۔ شکیل صاحب یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور اکرم صاحب انہیں یوں جاتا د کھتے رہے جیسے ان پر کوئی اثر ہی نہ ہوا ہو۔