اشاعتیں

مئی, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جنگل کا شیرjungle ka sheair

تصویر
جنگل کا شیر  جنگل کا شیراپنے شیر ہونے پر بڑا فخر محسوس کرتا تھا۔ جانوروں کو روک روک کر پوچھتا’ بولو! جنگل کا بادشاہ کون ہے؟‘‘ سب جانور یہی جواب دیتے ’’ جناب آپ ہی ہیں‘‘ شیر یہ سن کر خوب خوش ہوتا ۔ ایک دن شیر کی شامت آ ئی جواس نے ہاتھی کو روک کر پو چھا’ بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟‘ہاتھی نے جوشاید پہلے ہی سے غصے میں تھا اپنی سونڈ میں شیر کو لپیٹ کر اس زور سے زمین پر پٹخا بے چارہ شیرا پنی کمرسہلا تا رہ گیا اور پھر کہنے لگا’ ہا تھی بھائی اگر آپ کومعلوم نہ تھا تو نہ بتاتے مگر اس مذاق کی کیا ضرورت تھی ‘۔  ہا تھی نے ایک بار پھر چاہا کہ شیر کواٹھا کر پٹخ دے مگر شیر دم دبا کر وہاں سے بھاگا اور دور کھڑا ہوکر حیرت سے ہاتھی کو دیکھنے لگا اورسوچنے لگا کہ جس طرح ہاتھی نے اسے اٹھا کر پھینکا اس طرح تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاجس بات پر شیرہی کوکیاکسی کوبھی اعتراض ہوسکتاتھامگروہ کا م شیر کے سامنے ہو گیا۔ ہاتھی نے شیر کو اس زور سے پٹخا تھا کہ بیچارے شیر کی ساری بہادری دھری کی دھری ره گئی۔  

poem

تصویر
غفلت چھوڑو  اُ ٹھو بیٹا غفلت چھوڑو  غفلت چھوڑو کچھ کر گزرو  مایوسی کی دُھند کو چھا نٹو  علم کی تم تلوار سے کا ٹو  کوئی نہیں ہے جھوٹا سچا  کوئی نہیں ہےکڑوا میٹھا  دولت سے ہرچیز نہ تولو  کوئی بڑا تم بول نہ بولو  محنت کرکے آگے آؤ  علم سے اپنے پاؤں جما ؤ  کرنے پر جب کام تم آؤ  ٹوٹی کشتی پار لگاؤ  اُٹھو بیٹا غفلت چھوڑو  غفلت چھوڑو کچھ کر گزرو

poem bird

تصویر
پرندے  پرندے چہچہاتے پھررہے ہیں  سحر کے گیت گاتے پھر رہے ہیں  فضاؤں میں سفرجاری ہے اُن کا  پیروں کو پھڑپھڑائے پھر رہے ہیں  جما تے پھر رہے ہیں رنگ ہر سو  بڑی موجیں اڑاتے پھر رہے ہیں  کبھی پھولوں کو آکر چھو دیتے ہیں  کبھی پتے ہلاتے پھر رہے ہیں  کرن اُٹھو ا ور اُٹھ  کر تم بھی دیکھو یہ ہم سب کو جگا تے پھر رہے ہیں

informative post 3

تصویر
  سوال: زمین کا مرکز کس جگہ واقع ہے ؟ اس کا فاصلہ خط استوا سے زیادہ ہے یا قطبین سے ؟  جواب: ہماری زمین کا مرکز خط استوا ، خط سرطان ، خط جدی سب قرضی چیزیں ہیں ، جو ہم نے اپنی آسانی کے لیے فرض کرلی ہیں ۔ زمین نارنگی کی طرح چپٹی ہے گول ہے۔ یہ ایک کُرہ ہے اور اس کے اندر وہ قرضی نقطہ جو بالکل اُس کے مرکز یا بیچ میں تصوّر کیا جا سکتا ہے، اس کامرکز کہلاتا ہے ۔ یہ کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے جسے آپ جاکر دیکھ سکیں یا چھو سکیں ۔ یہ ایک فرضی نقطہ ہے۔ خط استواسے زمین کا قطر۴ ۱۲۷۴ کلومیٹر ہے اور چوںکہ زمین قطبین پر نارنگی کی طرح سے چپٹی ہے، اور اس لیے قطبین سے اُس کا قطر کچھ کم ہے یعنی مرکز استواسے دُور ہے اور قطبین  سے  ذرا قریب

informative post 2

تصویر
  سوال : گیس کا وزن کتنا ہو تا ہے ؟ ایک عام گھریلو سلنڈر میں کتنے فیٹ گیس آتی ہے؟   جواب : آپ سوئی گیس کے سلنڈر کے متعلق پوچھ رہے ہیں جو ہم کھانا پکانے کے لیے باورچی خانے میں استعمال کرتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ اس سلنڈر میں گیس نہیں ہوتی بلکہ گیس کا مائع ہوتا ہے یعنی پلانٹ پر جلانے والی گیس کو مائع میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ وہ مائع اس سلنڈر میں بھر دیا جا تا ہے اور جیسے ہی ہم اس کا پنیچ کھولتے ہیں ،یہ مائع پھر گیس میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔ یہ سلنڈر چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی کسی کا وزن ۲۵ کلو ہوتا ہے اور کسی کا زیادہ ، سب برابر نہیں ہوتے ۔

سب کا خیال رکھیں sabka khayal rakhain

تصویر
سب کا خیال رکھیں  عمیر اور بابر کی دوستی پورے اسکول میں مشہور تھی۔ دونوں پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے اور ہر سال اچھے نمبروں سے پاس ہوتے ۔ عمیر اور بابرکی اچھی تربیت میں ان کے والد ین کا بڑا حصہ تھا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت اچھی کی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ عمیراور بابر سے سب ہی پیار کرتے اور ان سے دوستی کرنا چاہتے تھے ۔ عمیراوربابر کی کلاس میں کئی بچے تھے ۔ان بچوں میں ایک بچہ جس کا نام وزیر تھا وہ بھی عمیراور با بر سے دوستی کر نا چاہتا تھا مگرکوئی بھی بچہ وزیر سے دوستی کرنا پسند نہیں کر تا تھا کیونکہ وزیرہربات میں اپنا ہی فائدہ ڈھونڈ تا تھا ۔  ایک دن عمیراور بابر نے وزیر کوسمجھایا کہ وہ بھی سب سے محبت کر نا سیکھے صرف اپنے فائدے کو نہ دیکھے بلکہ سب کا خیال کرے تا کہ دوسرے بھی اس سے دوستی پر خوشی محسوس کریں ۔ عمیراور بابر کی بات وزیرکواب سمجھ میں آ گئی تھی اور اس نے خود کو بدل لیا۔ اب وہ سب کا خیال رکھتا اور جو اپنے لیے پسند کر تا وہ ہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرتا ۔اب کلاس کے تمام ہی بچے وزیر کے بھی دوست تھے ۔

زندگی عارضی ہے zindagi arzi hai

تصویر
  زندگی عارضی ہے  عزیز بڑاہی لا لچی شخص تھا۔ ہر وقت دولت کمانے کی دُھن اس کے سر پر سوار رہتی ، اور اس کے لیے وہ ہر جائز اور نا جائز طریقہ کواپنانے کو تیار تھا۔ عزیز غیرملکی کرنسی (ر قم ) کا کاروبار کرتا تھا۔ ایک بار بازار میں ڈالر کے ریٹ کم ہوۓ تو عزیز نے بہت سے ڈالرزخرید لیے ۔ عزیز کا خیال تھا کہ ڈالر کے ریٹ ایک دم سے بڑھیں گے لہذا وہ کئی سوڈ الرخرید کر ڈالر کے ریٹ چڑھنے کا انتظار کر نے لگا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ڈالر کے ریٹ چڑھنے کے بجاۓ مزید کم ہو گئے اور اس طرح عزیز نے جو ڈالر مہنگے داموں خریدے تھے اس میں اسے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ بھائی عزیز تم نے لالچ کی ہی کیوں؟ اس کے ساتھی نے اس سے پوچھا۔" میرا خیال تھا کہ ڈالر کے ریٹ بڑھیں گے تو مجھے زیادہ منافع ہوگا اس لیے "۔ عزیز نے بولا۔ بھائی لالچ کبھی بھی نہیں کرنا چاہئے پیسہ تو جتنا آ ئے کم لگتا ہے آ خرقناعت بھی تو کوئی چیز ہے  اس کی زندگی کا کیا بھروسہ آخر زیادہ دولت کما کر کیا کروگے؟ ،اس کے سا تھی نے کہا اور پھر چلا گیا۔ عزیز سوچ رہا تھا کہ لالچ کرنے کی وجہ سے اسے بڑابھاری نقصان اٹھانا پڑ گیا۔

ووٹ Vote

تصویر
  ووٹ  انتخابات کی تاریخ کا کیا اعلان ہوا لگتا تھا کہ ہر طرف ہمدردوں کی لائن سی  لگ گئی ہو ۔ جوامید وار ا لیکشن میں کھڑے ہوۓ وہ تو اپنی ہمدردی دکھا رہے تھے ۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے دوست احباب بھی ہمدردی دیکھنے میں کسی سے کم نہیں تھے ۔ کوئی کہتا کہ میں علاقے کے" سارے مسائل حل کردوں گا" کوئی اعلان کرتا کہ" بجلی بار بارنہیں جاۓ گی"،کوئی کہتا کہ "تعلیم مفت ہو جاۓ گی-" غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔" کریم صاحب اس بار کسے ووٹ دینے کا ارادہ ہے؟" رحیم صاحب نے گلی کےکونے پرکھڑے کریم صاحب سے ان کی راۓ پوچھی ۔ "ارے بھائی!! میں جسے بھی ووٹ دوں وہ تھالی کا بیگن نکلتا ہے ، ووٹ لیتے وقت کسی پارٹی میں ہوتا ہے اور ووٹ لینے کے بعد دوسری پارٹی میں امید واربھی اچھے خاصے غیرمستقل مزاج ہوتے ہیں ،لا لچ کے باعث کبھی کسی طرف اور کبھی کسی طرف چلے جاتے ہیں" کریم صاحب نے اچھی خاصی تقریر کر ڈالی اور رحیم صاحب کریم صاحب کا گرم موڈ دیکھ کر چپکے سے وہاں سے مسکراتے ہوۓ چل دیے۔

پڑوسن کا بچہ Paroosan Ka Bacha

تصویر
  پڑوسن کا بچہ  بڑاہی ہونہار نکلے گا یہ ۔ خالہ بی نے اپنی پڑوسن کے گھر پیدا ہونے  والے بچے کو گود میں لیتے ہوئے پیار کرتے ہوۓ کہا۔ "آپ کو کیسے پتہ خالہ بی؟" پڑوسن نے پوچھا۔ " لو،ارے بھئی ! بچپن ہی سے برے یا بھلے کے آثار معلوم ہو جاتے ہیں "۔ خالہ بی نے بچے کوایک بار پھر پیار کر تے ہوۓ کہا۔" خالہ بی بس دعا کریں کہ الله اسے نیک اور بڑا آ دی بناۓ"۔ پڑوسن نے کہا۔ ہاں... ہاں کیوں نہیں ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں جن بچوں کی پرورش اور تربیت اچھی ہوگی وہ ایک دن اپنے ماں باپ کا نام ضرور روشن کر تے ہیں۔خالہ بی نے کہا اور اپنے گھر چلی گئیں۔

جو مدد کرے ا سی کو دھوکہ دینا Jo Madad Kare Ussi ko Dhoka Dena

تصویر
 جو مدد کرے ا سی کو دھوکہ دینا    سیٹھ عارف کو الله نے خوب دولت سے نوازا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بڑے رحم دل بھی تھے ۔ ایک دفعہ وہ اپنی گاڑی میں کہیں جارہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک لڑکا بھیک مانگتا ہوا نظر آیا انہوں نے اس لڑکے کو روک کر پوچھا "تم تو ٹھیک ٹھاک ہو کام کیوں نہیں کرتے؟"۔ صاحب کام ملتا نہیں ہے"۔ لڑکے نے کہا۔"  اگر میں تمہیں کام دوں تو ؟ سیٹھ عارف نے اس سے پو چھا ۔ " آپ کاشکر گزار ہوں گا"۔ لڑکے نے کہا اور پھرسیٹھ عارف اسے اپنے گھر لے آۓ اوراپنے لان میں اسے پودوں کو پانی دینے کے کام پر لگادیا۔ دن گزرتے رہے ایک دن سیٹھ عارف کو پتہ چلا کہ وہ نوجوان ان کے بنگلے سے چوری کر کے بھاگ گیا ہے ۔سیٹھ عارف کو اس بات کا بڑا دُکھ ہوا وہ تو اس لڑکے کو ایک اچھا انسان بنانا چاہتے تھے مگر وہ انہی کو دھوکہ دے گیا۔ وہ سوچنے لگے کہ د نیا میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کو جس سے فا ئد ہ ہو وہ اس کے ساتھ بُرا سلوک کریں اور فائدہ پہنچانے والے ہی کو نقصان پہنچائیں۔

مصر کا ایک بُت Misaar Ka Ek Bott

تصویر
مصر کا ایک بُت اہرام مصرمیں ایک بڑا بُت ہے جس کا سرانسان کا اور دھڑ شیر کا ہے ۔ اس کی لمبائی 66 گز اور اونچائی 24 گز ہے ۔ اسے دیکھ کر بڑا لگتا ہے، اسی لیے اسے ابوالہول کہتے ہیں۔ یعنی خوف والا ۔ یہ بُت غزہ کے قریب ایک بڑی چٹان تراش کر بنایا گیا ہے۔ پہلے اس کا صرف سرنظر آتا تھا۔ پھر مصر کے محکمہ آثار قدیمہ نے 1817ء میں یہاں کھدائی کی۔ صدیوں کی بیٹھی ہوئی مٹی اور ریت ہٹائی گئی تویہ پورا  بُت نظر آیا۔ اس کی داڑھی اور ناک ٹوٹ چکی ہے جس میں سے وہ اور بھی خوف ناک نظر آتا ہے ۔ اس  بُت کی کہانی میں ہے کہ یہ ایک جن تھا اور مختلف شکلیں بدلتا رہتا تھا۔ یہ لوگوں سے بڑے بڑے سوال کرکے پریشان کیا کرتا تھا۔ اور اگر وہ اس کے سوالوں کے جواب نہ دیتے تو انہیں کھاجاتا تھا۔ اس کا سب سے اہم سوال یہ تھا کہ وہ کون سا جانور ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے، دو پہر کو دو ٹانگوں پر اور شام تین ٹانگوں پر چلتا ہے ۔ ایک شخص نے اس کے سوالوں کا جواب دے دیا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ وہ انسان ہے جو بچپن میں چار ہاتھ پاؤں سے چلتا ہےجوانی میں دو ٹانگوں پراور بڑھاپے میں دو ٹانگوں اور ایک لا ٹھی کے سہارے چلتا ہے اس کے بعد یہ

ظلم اور دعا Zulm Or Dua

تصویر
 ظلم اور دعا   ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عالم بادشاہ کے جسم پر ایک ایسا پھوڑا نکل آیا جس میں سنحت جلن تھی۔ بادشاہ نے بہت علاج کرایا لیکن پھوڑا ٹھیک ہونے کے بجائے بڑھتا ہی گیا اور بادشاہ اس پھوڑے کی تکلیف سے سوکھ کر کانٹا ہوگیا۔  ایک درباری نے بادشاہ کو ایک بزرگ کا  بتایاجن کے متعلق مشہور تھا کہ ان کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ بادشاہ نے ان بزرگ سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا کریں۔ بزرگ نے فرمایا،" اے بادشاہ! مجھ ایک شخص کی دعا ان لاکھوں مظلوموں کی بد دعاؤں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی جو تیرے ہاتھوں تکلیفوں میں مبتلا ہیں۔ جب تک تو ان پر رحم نہیں کرے گا اللہ تعالی تجھ پر بھی رحم نہیں کرے گا۔" بادشاہ پر بزرگ کی باتوں کا بہت اثر ہوا۔ اس نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو فوراً رہا کردیا جاۓ اور آئندہ سے کسی بے گناہ پر ظلم نہ ہو ۔ جب بزرگ کو اطمینان ہو گیا کہ بادشاہ نیکی کی طرف مائل ہے تو بزرگ نے اللہ تعالی سے دعا کی:" اے اللہ تو نے اس بادشاہ کو اس لیے تکلیف میں مبتلا کیا کہ یہ تیرے بندوں کو تکلیف دے رہا تھا ۔ اب اس نے اس برائی سے توبہ کر لی ہے تو تو بھی اس کی تکلیف کو دور فرما دے ۔" ابھی