کبھی ما یوس نا ہوں Kabhi Mayoos Na Hon

کبھی مایوس نا ہوں

شمیم باجی اچانک اتنی بیمار ہوئیں کہ انہیں ہسپتال میں داخل کرانا پڑ گیا۔ سارے رشتہ دار انہیں دیکھنے کے لئے ہسپتال آرہے تھے ۔ شمیم باجی کے زیادہ تر رشتہ دار شہر سے دور رہتے تھے ۔ لیکن جیسے جیسے جس کو بھی اطلاع ملی- وہ شمیم باجی کی خیریت معلوم کرنے چلا آیا۔ شمیم باجی بہت محبت والی خاتون تھیں سب سے ہنس کر ملنا ان کی عادت کا حصہ تھا۔ ان کی بیماری کچھ اس نوعیت کی تھی کہ وہ بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں موجود تھیں اور زندگی کی امید بہت کم تھی مگر مرتے دم تک آ خر زندگی کی امید تو لگی رہتی ہے’’جب تک سانس تب تک آ س‘‘ شمیم باجی کے لئے سب ہی دعائیں کر ر ہے تھے۔ ان کے بھائی ہسپتال میں ہر وقت موجود رہے کہ نہ جانے کب کس وقت کس چیز کی ضرورت پیش آ جاۓ ۔ چند دنوں بعد شمیم باجی کی حالت پہلے سے کچھ بہتر ہونے لگی اور پھر وہ اپنے گھر واپس آ گئیں گھر پرشمیم باجی کے بیٹوں اوران کے شوہر نے ان کا خوب خیال رکھا اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگیں۔ سچ ہے زندگی کے ساتھ دکھ سکھ لگے رہتے ہیں۔ ہمارا کام تو صرف یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے دکھ کے دور ہونے اور سکھ کے رہنے کی دعا کریں۔ 





تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

رسی جل گئی پر بل نہیں گیا (Rassi Jal Gai Per Bal nhi Gya)

غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے Ghalti Koi Kare Aur Uski Saza Kisi Aur Ko Miley

وقت ضائع کرنا Waqt Zaya Karna