کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا ( Kam Himmat ka Apny Ilaqey mai Bahadur Ban Jana )

  کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا

 راحیل میاں سیدھے سادھے تھے اور بڑے ہی بھولے بھالے سے بچے تھے۔ آٹھویں کلاس میں پڑھتے لیکن اپنی معصومانہ باتوں کی وجہ سے یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی چوتھی کلاس ہی میں ہوں ۔ راحیل میاں کے سا دے پن کی وجہ سے بہت سے بچے اس سے شرارت کرتے اور کلاس میں ا اسے تنگ کرتے کئی بار تو اسکول کے میدان میں کھیلتے ہوئے کچھ شرارتی بچے اسے دھکا بھی دے دیتے مگر وہ ان سے کچھ بھی نہیں بول پاتا بلکہ گھر آ کر اپنی امی سے کہتا کہ اسے بچے تنگ کرتے ہیں ان بچوں کی شکایت کرتا ۔ راحیل کے امی ابو کوبھی راحیل کے بھولے پن کا معلوم تھا۔ وہ اسے سمجھادیتے اورراحیل میاں یوں سر ہلاتے جیسے انہیں سب کچھ سمجھ میں آ گیا ہو ۔ راحیل کا کئی بار تو دل چاہتا کہ وہ ان شرارتی بچوں کی خوب ٹھکائی لگائے لیکن وہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ گھر سے اسکول بہت دور ہے اگر یہاں وہ کسی سے لڑ ئی کرے گا تو پھر سارے شرارتی بچے ایک ہو جائیں گے اور الٹا اسے ہی ماریں گے ۔

 ایک دن راحیل چھٹی والے دن اپنی گلی میں کھیل رہاتھا کہ اس کی نظر اپنے اسکول کے اس شرارتی لڑکے پر پڑی جوراحیل کو اسکول میں بہت تنگ کرتاتھا اور کھیل کے دوران اسے دھکا  بھی دے دیا تھا۔ اب جوراحیل نے دیکھا کہ وہ اتفاق سے اس کی گلی میں آ گیا ہے تو راحیل میاں میں اچا نک طاقت ہی آ گئی، اپنا سب بھولا پن کو بھول کر اس لڑکے کو پکڑ لیا اور اپنے گھر کے پاس لے آئے۔

 ا بوجلدی آ ئیں! یہ مجھے اسکول میں بہت تنگ کرتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے راحیل میاں نے ایک گھونسا بھی اس لڑکے کو مار دیا راحیل کے ابو گھر سے باہر آئے تو انہوں نےراحیل کی گرفت سے اس لڑکے کوچھڑایا اور اسے آئندہ راحیل کو پریشان نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ 

ارے بھئی .... راحیل نے تو آج کمال کر دیا ! اس لڑکے کو پکڑ لیا میں تو اسے بھولا سمجھتی تھی راحیل کی امی نے ہنستے ہوئے کہا





تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

رسی جل گئی پر بل نہیں گیا (Rassi Jal Gai Per Bal nhi Gya)

غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے Ghalti Koi Kare Aur Uski Saza Kisi Aur Ko Miley

زندگی عارضی ہے zindagi arzi hai