اشاعتیں

waqia لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

قرض Qarz

تصویر
 قرض  نعمان بھائی کا چند روز پہلے انتقال ہو چکا تھا ۔ زہیب نےنعمان بھائی سے 5000 روپے بطورقرض لیے تھے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ قرض کی رقم ان کی بیوہ کو دے دیں ۔ ایک دن انہوں نے نعمان  بھائی کی بیوہ کو قرض کی رقم لوٹا دی قرض کی رقم لوٹانے کے بعد زہیب اپنے گھر آ گئے اوراپنی بیوی سے کہنے لگے میں نےنعمان بھائی کی بیوہ کوقرض کی رقم لوٹا دی ہے، اب میں خودکو بڑاہلکا محسوس کر رہا ہوں ۔ چلو اچھا ہوا ، جس کی چیزتھی اس پر خرچ ہوگئی ، آ ج کے دورمیں اللہ کسی کا قرض اتروا دے تو بڑی نعمت ہے ۔ اب کم از کم ہمارے او پرکوئی بو جھ تو نہیں رہا زہیب کی بیوی نے کہا اورزہیب نے اپنا قرض اتر جانے پراللہ کا شکر ادا کیا۔

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے Jisse ALLAH Rakhe Usse Kon Chakhe

تصویر
 جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے  بس میں بھیٹر اس قدر تھی کہ زیان باوجود کوشش کے بس میں نہیں بیٹھ سکا۔ اسے اسکول جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی بس میں وہ بیٹھ نہیں سکا جس کا اسے بڑادکھ تھا۔ وہ پیدل ہی اسکول کی جانب روانہ ہو گیا تا کہ جتنا فاصلہ ہوسکے وہ طے کر لے اس طرح کچھ وقت بچے گا۔ ابھی  زیان تھوڑا ہی دور گیا ہوگا کہ اس نے دیکھا کہ جس بس میں وہ بیٹھ نہیں سکا تھا وہ بس ایک گہرے کھڈ میں گری ہوئی ہے اورزخمی لوگ مدد کے لیے چلا رہے ہیں ۔  زیان بھی بھاگم بھاگ دیگر لوگوں کے ہمراہ زخمیوں کو بس سے باہر نکالنے میں مدد کرنے لگا۔  زیان کو بار بار اس بات کا خیال آ رہا تھا کہ اللہ جوکر تا ہے بہتر کرتا ہے اگر وہ اس بس میں بیٹھ جاتا تو وہ خود بھی  زخمی ہوتا مگر’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔  زیان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مصروف ہو گیا۔ 

سُست انسان Soost Insan

تصویر
سُست انسان  ارے! اکرم صاحب اپنے ٹوٹے ہوۓ صحن کا فرش تو بنوالو ۔ شکیل صاحب نے اکرم صاحب کے گھر بیٹھے ہوۓ ان کے صحن کے ٹوٹے فرش کو دیکھ کر کہا۔ اکرم صاحب ذرا سُست طبیعت کے انسان تھے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ۔ یہی وجہ تھی کہ کئی دن گزرنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے گھر کے صحن کا فرش جو جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا تھانہیں بنوایا تھا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب پورا گھر بنواؤں گا تو فرش بنوالوں گا۔ اکرم صاحب نے کہا۔ یہ کیا بات ہوئی ، پورا گھر بنوانے کے لیے تو بڑی رقم کی ضرورت ہے اور تمہارے پاس اتنی رقم ہے نہیں ،اب اتنے سے کام کوکروانے کے لیے تم بڑے کام کے انتظار میں ہو جس کا دور دور تک امکان بھی نہیں ۔ شکیل صاحب یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور اکرم صاحب انہیں یوں جاتا د کھتے رہے جیسے ان پر کوئی اثر ہی نہ ہوا ہو۔

آفت کے آثار پہلے سے نظر آ نا Aafat Ke Asaar Pehle Se Nazar Ana

تصویر
  آفت کے آثار پہلے سے نظر آ نا  بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کسان پہلے ہی پریشان تھے - اب کچھ دنوں سے جو فصل تیارتھی اس پر ٹڈیوں نے آ نا شروع کر دیا تھا۔  بھائی دعا کرو جلد بارش ہو جاۓ ، اب تو ٹڈیاں بھی آنے لگی ہیں ۔ سمجھ لو کہ آنے والی آفت کے آثار نظر آرہے ہیں ’’ ٹڈی کا آ نا کال کی نشانی ‘‘ ہے۔ گاؤں کے ایک کسان نے فکر مند ہوتے ہوۓ دوسرے کسانوں سے کہا اور پھرسب ہی کسان رات بھراللہ تعالی سے بارش ہونے کی دعا کرتے رہے۔ دوسرے دن صبح ہی سے گاؤں پر بادل منڈلا رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے زورداربارش بھی ہوگئی ۔ بارش ہوتے ہی تمام کسانوں کے چہرے خوشی سے جھوم اٹھے ہرکوئی بارش ہونے پر خوشی سے ناچ رہا تھا ۔ تمام کسانوں نے بارش ہو نے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کیوں کہ اللہ کی رحمت سے اب گا ؤں والوں کو امید تھی کہ ان کی فصل بہت اچھی ہوگی اور ٹڈیوں کے کھیتوں سے واپس چلے جانے کے بعد ان کے کھیتوں کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

چور کے پیر کہاں Chor Ke Peaar Kahan

تصویر
 چور کے پیر کہاں   فیض بابا کے گھر گاؤں کے تقریباً سب ہی لوگ جمع تھے ۔ اور اپنے افسوس کا اظہار  کر رہے تھے ۔ ہوا یوں کہ فیض بابا کے گھر کل رات چوری ہوگئی تھی ۔ چوران کے گھر سے سارا سامان لے کر چلے گئے تھے- یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے لوگ فیض بابا سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کر رہے تھے ۔ فیض با با تم نے چورکود یکھا تھا ؟ ایک نے کہا۔ "نہیں " فیض بابا نے مختصر جواب دیا۔ ارے بھئی دیکھتے بھی کیسے"چور کے پیر کہاں" ۔ چورتو ذرا سا کھٹکا سن کرہی بھا گ جاتا ہے گاؤں کے ایک شخص نے اپنی رائے دیتے ہوۓ کہا۔    اور پھر کچھ دیر بعد سب ہی اپنے اپنے افسوس کا اظہا راور ہمدردی کر نے کے بعد ایک ایک کرکے واپس اپنے گھروں کو چلے گئے اور بے چارہ فیض بابا ایک بار پھر اپنے گھر میں تنہا بھیٹے چور کے متعلق سوچنے لگے ۔

غصہ والا لڑکا Guse Wala Larka

تصویر
غصہ والا لڑکا  بڑے بوڑھوں سے ہمیشہ ہی سنتے آۓ ہیں کہ غصہ حرام ہے مگر شاید رحیم نے یہ نہیں سن رکھا تھا اور اگرسن بھی رکھا تھا تو وہ اس پرعمل نہیں کرتا تھا ۔  ہر ایک سے غصہ میں بات کرنا اور بات بات پر ناراضگی کا اظہار کرنا اس کی تو جیسے عادت تھی ۔ ایک دن اس کے دوست نے رحیم سے کہا ــ "یا ر! رحیم آج تو کہیں پکنک منانے چلتے ہیں تم بتاؤ کدھر چلیں؟" میری بلا سے "جہاں سینگ سمائے چلے جاؤ"میں تو کہیں نہیں جاؤں گا ۔ رحیم نے حسب عادت غصے سے کہا بے چارہ اس کا دوست جو بڑی امیدوں کے ساتھ رحیم کے پاس آیا تھا اپنا سا منہ لے کر چلا گیا ۔ رحیم کے ہر وقت چڑ چڑے رہنے اورغصے کی عادت کی وجہ سے اس کے دوست اب آہستہ آہستہ اس سے کترانے لگے اور پھرایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب رحیم کا کوئی بھی دوست باقی نہیں رہا کیوں کہ جو غصے والے ہو تے ہیں ان سے کوئی بھی دوستی کرنا پسند نہیں کرتا ، پیاراوراخلاق سے ہی لوگوں کے دل جیتے جاتے ہیں۔

خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے Khuda Deta Ha Tu Chappar Phar kar Deta Ha

تصویر
 خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے   جب مہنگائی بہت زیادہ ہو تو گھر کا گزارا بڑی مشکل سے ہوتا ہے ۔ یہی حال کچھ فاروق کے ساتھ تھا۔ وہ دن میں کالج میں پڑھتا اور شام میں بچوں کے کھلونے فروخت کرتا۔ اس طرح وہ اپنے بوڑھے ماں، باپ کا پیٹ پال رہا تھا۔ فاروق ایک دن بازار میں کھلونے بیچ رہا تھا- تو اس نے دیکھا کہ ایک جگہ انعامی رقم کے ٹکٹ مل رہے ہیں فاروق نے بھی ایک سوروپے والا ٹکٹ خرید لیا۔ دن گزرتے گئے اور فاروق بچوں کے کھلونے فروخت کر کے اپنی تعلیم اور گھر کا خرچ پورا کرتارہا۔ ایک دن اخبار میں ان ٹکٹوں کے نمبر شائع ہوۓ جوانعامی رقم کے حوالے سےفاروق نے خریدا تھا۔ اس نے دھڑ کتے دل سے پہلے اپنے ٹکٹ کے نمبرکود یکھا اور پھر اخبار میں آنے والے نمبروں سے ملانے لگا۔ "وہ مارا....!"فاروق خوشی سے چلایا ۔ پہلا انعامی رقم کا نمبراس کے خریدے ہوۓ ٹکٹ سے مل گیا تھا۔ اب توفاروق کے وارے نیارے ہو گئے ۔ پورے محلے میں خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سب ہی محلے والے فاروق کوانعام نکلنے پر مبارک باد دے رہے تھے۔ واقعی سچ ہے کہ ’خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے‘۔

غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے Ghalti Koi Kare Aur Uski Saza Kisi Aur Ko Miley

تصویر
  غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے  یاور اور نواز کی صورتیں کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی تھیں اکثر ایسا بھی ہوتا کہ یاور کی غلطیوں اور شرارتوں کی سزا بچارے نواز کو ملتی۔ یاور اور نواز دونوں جڑواں بھائی تھے۔ یاور بہت حد تک شرارتی تھا جبکہ نواز سیدھا لڑکا تھا۔ ایک دن شب برات کی موقع پر گلی میں کچھ لڑکے پٹاخے پھوڑ رہے تھے۔ یاوربھی ان لڑکوں میں شامل تھا۔ پٹاخے چھوڑنے کی وجہ سے محلے کے لوگ پریشان نظرآ رہے تھے اس لئے وہ ان لڑکوں کو ڈانٹنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلے تو سارے لڑکے بھاگ گئے۔ محلے کے ایک شخص نے یاوراور نواز کے گھر میں شکایت کردی کہ نواز پٹاخے چھوڑ رہا ہے۔ نواز کے ابو نے نواز کوخوب ڈانٹ پلائی جبکہ یاور دوسرے کمرے میں چھپا بیٹھا تھا اور نواز ابو کی ڈانٹ کے کھاتے وقت سوچ رہاتھا کہ گناہ بھی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی کو ملے ۔

بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی Bewakof Ki Khas Nishani Nhi Hoti

تصویر
  بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی  میری بات پر یقین کرو، جنگل میں خزانہ دفن  ہے عباس نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوۓ کہا۔ تم خواہ مخواہ کی بات کر ر ہے ہو، یہ بھلا کیسےممکن ہے؟ قاسم نے تعجب کا اظہار کر تے ہوۓ کہا۔ عباس اور قاسم گہرے دوست تھے ۔ عباس کوکسی طرح یہ بات معلوم ہوئی کہ جنگل میں خزانہ دفن ہے اس لیے وہ اپنی بات پر اصرار کر رہا تھا جبکہ قاسم کو اس بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ دونوں دوست اس معاملے پر کافی دیر سے بحث کر ر ہے تھے ۔ ’’تم مجھے بے وقوف لگتے ہو قاسم نے عباس کی طرف غور سے دیکھتے ہوۓ کہا۔ کیا میں تمہیں بے وقوف لگتا ہوں؟‘‘عباس نے مصنوعی غصے سے پوچھا۔ کیوں؟ بے قوف کے سر پر کیا سینگ ہوتے ہیں؟ قاسم نے عباس کوایک بار پھر غور سے دیکھتے ہوۓ کہا اب توعباس کو جیسے واقعی غصہ آ گیا وہ قاسم کو مارنے کے لیے اس کی طرف بھاگا مگرقاسم پہلے سے ہی تیار تھا وہ وہاں سے بھاگ گیا اور عباس منہ پھلاۓ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

چور بندر Chor Bandar

تصویر
چور بندر  نعیم اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنی خالہ کے گھر کچھ دن رہنے کے لئے گیا۔ اس کی خالہ شہر سے دور ایک گاؤں میں رہتی تھیں ۔ جس گاؤں میں اس کی خالہ رہتی تھیں وہاں بہت سے بند ربھی تھے جو پورے گاؤں میں خوب شرارتیں کرتے پھرتے- شام کے وقت نعیم اپنے کزن کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا ، اتنے میں اچانک ایک بندرنعیم کا چھوٹا بلا اور گیند اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو نعیم نے بہت شورمچایا نعیم کے شور مچانے پر گاؤں کے کچھ لوگوں نے بندر کا پیچھا کیا بندربھاگتے بھاگتے نعیم کی گیندتو پھینک گیا مگر بلا لے کر بھاگ نکلا۔ نعیم ا پنی گیند ہاتھ میں لئے اور بلے کے چھن جانے پر افسوس کے ساتھ بندرکو بھاگتے ہوۓ دیکھتارہا۔ بیٹا افسوس نہ کرو، یہ بندر ہیں ہی بڑے شرارتی ،شکر کرو کہ تمہاری گیند چوڑگیا ۔ گاؤں کے ایک شخص نے نعیم  کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ کر دلاسہ دیتے ہوۓ کہا۔ ہاں بیٹا ! بس یوں سمجھ لو کہ’ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ دوسرے شخص نے نعیم سے کہا اورنعیم منہ بناتا ہوا اپنی خالہ کے گھر چلا گیا۔

باد شاہ کا حکم Badshah Ka Hukum

تصویر
  باد شاہ کا حکم  گھوڑوں کی آوازوں سے لگتا تھا ۔ کہ جیسے بستی میں زلزلہ آ گیا ہو۔ گھوڑوں پر سوارلوگ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوۓ بستی میں داخل ہوۓ ۔ "بستی کا سردار کہاں ہے"؟ بستی میں داخل ہوکرایک گھوڑے سوار نے ( ادھرادھر نظر دوڑاتے ) ہوۓ کہا۔ "میں ہوں بستی کا سردار کیا بات ہے"؟ بڑی عمر کا ایک شخص آگے بڑھا۔ "تمہیں بادشاہ نے اپنے دربار میں بلایا ہے، ابھی اوراس وقت پہنچو"۔ گھوڑے سوار نے کہا اور پھر سارے گھوڑے سواراپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوۓ واپس روانہ ہو گئے ۔" بابا آخر بادشاہ نے آپ کو کیوں بلایا ہوگا" سردار کے بیٹے نے پوچھا۔ "مجھے کیا خبر، مجھے تو اب جلدی سے جاناہی ہو گا کیوں کہ حاکم کا ملازم ہمیشہ جلدی ہی کرتا ہوا آ تا ہے" ۔ سردار نے کہا اور پھر وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے جلدی جلدی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔

ہرکوئی اپنی اپنی کہتا ہے Har Koi Apni Apni Kheta Hai

تصویر
 ہرکوئی اپنی اپنی کہتا ہے  یار! جاوید آج تم کس رنگ کی قمیض پہن کر آۓ ہو؟  جمال نے اپنے دوست جاوید کی شوخ رنگ کی قمیض کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ تعجب سے کہا۔  "میرے انکل نے جاپان سے بھیجی ہے۔ مجھے اچھی لگی میں نے پہن لی‘‘۔ جاوید نے بے فکری سے جواب دیا۔ " قمیض کا رنگ بہت شوخ ہے" جمال نے اپنی بات پر زور دیتے ہوۓ کہا۔  یار جمال تم نے سنانہیں پسند اپنی اپنی ، مجھے قمیض پسند آئی اور میں نے پہن لی ، مجھے دوسروں کی فکر نہیں  ہرشخص اپنی اپنی کہتا ہے’جتنے منہ اتنی باتیں‘۔ جاوید نے ایک بار پھر بے فکری سے کہا اور پھر دونوں دوست میدان میں کرکٹ کھیلنے کے لئے چلے گئے ۔

سبنری بازار (Sabzi Bazar)

تصویر
سبزی بازار  نومی سبزی  بازار میں سبزیوں کا ٹھیلا لگا تا تھا۔ اس کے ساتھ اور دیگر لوگ بھی مختلف اشیاء کے ٹھیلے لگاتے ۔ سبزی  بازارہی میں کچھ کی دکانیں بھی تھیں جن پر سبزیاں اور دیگر اشیاء ملتیں ۔  سبزی بازار میں ٹھیلے والوں کو اکثر پولیس والے تنگ کرتے تھے۔ جبکہ پکی دکانوں کے مالکان کو کہ جنہوں نے اپنا سامان دکان سے باہر بھی رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے چلنے پھرنے والوں کو تکلیف بھی ہوتی تھی اس کے باوجود پولیس والے دکان والوں کوتو کچھ نہ کہتے البتہ ٹھیلے والوں کوخوب کھری کھری سناتے اور ٹھیلے والے بے چارے اپنے ٹھیلے آ گے پیچھے کرتے رہتے ۔ پولیس کے اس رویے پرا کثر ٹھیلے والے ایک دوسرے سے کہتے ’غریوں پر سب کا زور چلتا ہے ،غریب کو جو چا ہے کھری کھری سنادے یاد بادے کوئی پوچھنے والانہیں۔ "ہاں بھائی ٹھیک کہتے ہو" غریب کی جوروسب کی بھابی ۔ دوسرے ٹھیلے والے نے کہا اور سب ہی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی ۔

جس کی چیز ہواسی کا نام ہوتا ہے (Jis ki Cheez ho Ussi ka Nam Hota Hai)

تصویر
  جس کی چیز ہواسی کا نام ہوتا ہے  جنگل کے قریب ایک چرواہا بکریاں چرار ہا تھا ۔ بکریوں کے ریوڑ سے ایک بکری کہیں ۔ غائب ہوگئی اور اب بے چارا چرواہ فکرمند بیٹھا تھا۔ چرواہا نے سوچا چلوقریب کے گاؤں جاکر معلوم کرتے ہیں شاید اس کی بکری راستہ بھٹک کر وہاں چلی گئی ہواس خیال کے آتے ہی چرواہا -  اپنی بکری کی تلاش میں گاؤں جا پہنچا۔ گاؤں پہنچ کر چرواہا نے وہاں کے لوگوں سے اپنی کھوئی ہوئی بکری کے بارے میں پوچھا اتفاق سے اس گاؤں کے ایک آدمی کو وہ بکری مل گئی تھی ۔ وہ آ دی شریف تھالہذا اس نے بکری واپس کر دی ۔ چرواہا نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراپنی بکری لے کر واپس لے کر گاؤں چلا گیا۔  

کسی چیز کا کوئی نام ونشان نہ ہونا (Kisi Cheez Ka Koi Namo Nishan Na Hona)

تصویر
  کسی چیز کا کوئی نام ونشان نہ ہونا  سمجھ میں نہیں آرہا میرا چشمہ کہاں غائب ہوگیا، نام ونشان تک نظرنہیں آرہا ایسے غائب ہوگیا جیسے "گدھے کے سر سے سینگ"۔ اسد صاحب اپنے چشمے کی تلاش میں سارے گھر کی تلاشی لیتے ہوئے بڑ بڑاۓ جارہے تھے ۔  آپ بھی عجیب ہیں چشمے کی ' تلاش میں سارا گھر الٹ دیا‘۔ اسد صاحب کی بیگم نے جوابھی ابھی باہر سے آئی تھیں اسد صاحب کو گھر کا حشر نشر کرتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔" بھئی بیگم میرا چشمہ نہیں مل رہا"اسد صاحب نے غصے سے کہا ۔  چشمہ تو آپ کے سر پر لگا ہوا ہے بیگم نے ہنستے ہوئے کہا اور اسد صاحب نے فوراً ہی اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوۓ کہا "تم ٹھیک کہتی ہوبیگم چشمہ میرے سر پر ہے اور میں..." یہ کہہ کر وہ بھی ہنس دیئے ۔  بعض اوقات انسان کو سامنے رکھی ہوئی چیزیں نظرنہیں آتیں مگراس کیلئے ہمیں غصہ نہیں کر نا چا ہے بلکہ صبر کے ساتھ چیز کوڈھونڈ نا چا ہے ۔ جو کام صبر سے کیا جاۓ اس کے اثرات اچھے نکلتے ہیں۔

وہ خاتون جو گھر کے سارے کام خودہی کرتی ہوں (Wo Khatoon Jo Ghar Ke Sarey Kam Khud Hi Karti Hain)

تصویر
 وہ خاتون جو گھر کے سارے کام خودہی کرتی ہوں  خالہ محمودہ کا اس دنیا میں کوئی تھا ہی نہیں ۔ان کے شوہر کا انتقال بہت پہلے ہو چکا تھا اوراولاد بھی ان کی کوئی نہیں تھی ۔اپنے گھر میں وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں ۔ اکیلے  پن سے گھبرا کر وہ اکثر آس پڑوس کے گھروں میں بیٹھ جایا کرتیں اور ادھر ادھر کی  با تیں کر کے اپناوقت پاس کر تیں ۔ خالہ محمودہ کی وہی مثال تھی کہ "آپ ہی بی بی آپ ہی باندی" اپنے گھر کے سارے کام خود ہی کرتیں ۔ خالہ محمودہ کبھی کبھی اپنے اکیلے پن سے گھبرا ا بھی جاتیں ۔ ایک دن انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے گھر میں پرندے اور کچھ پالتو جانور پال لیے جائیں تا کہ ان کی دیکھ بھال میں وقت اچھا گز رجاۓ ۔ یہ سوچ کر خالہ محمودہ نے مختلف قسم کے پرندوں کے ساتھ ساتھ ایک بکری اور ایک دنبہ بھی خریدلیا۔ پرندوں اور پالتو جانوروں کو گھر میں لے آنے کے بعد خالہ محمودہ کا وقت اب پہلے سے بہت اچھا گزرنے لگا۔ پرندوں کی آواز سے ان کے گھر میں رونق سی ہوگئی وہ پرندوں اور جانوروں کی خدمت کر کے ایک خوشی محسوس کرنے لگیں اور ان کا وقت بھی اچھا گز رنے لگا۔

ایک در بند ہزار در کھلے (Ek Dar Band Hazar Dar Khule)

تصویر
 ایک در بند ہزار در کھلے  عالم صاحب آج کل کا فی پریشان رہتے تھے ۔ان کے دو بچے تھے جن کی تعلیم کے اخراجات بھی زیادہ تھے - کیوں کہ دونوں بچے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ کمپیوٹر کی تعلیم بھی حاصل کررہے تھے ۔   عالم صاحب کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ملازمت چھوٹ گئی تھی کیوں کہ کمپنی کے مالک نے اپنا سارا کاروبار فروخت کر دیا تھااورخودملک سے باہر چلا گیا۔ ملازمت چھوٹنے پرعالم صاحب بڑے اداس اور فکر مند رہنے لگے ۔ایک دن ان کے دوست نے ان سے کہا تم پریشان مت ہو،روزی دینے والا تو اللہ ہے ، جب اللہ نے اپنے بندے کو اس دنیا میں پیدا کیا تو اس کا رزق پہلے بھیج دیا،ایک ذریعہ ختم ہونے پر اللہ کئی اور ذریعے پیدا کردیتا ہے، ’ایک در بند ہزار در کھلے‘ ۔ کہتے تو تم ٹھیک ہو بس دعا کرو جلد ہی کوئی انتظام ہو جاۓ تا کہ گھر کا خرچ اور بچوں کی تعلیم میں کوئی حرج نہ ہو۔عالم صاحب نے اپنے دوست کے ہمت بڑھانے پر کہا اور پھر کچھ ہی دن بعدعالم صاحب کو ایک دوسری کمپنی میں بہت اچھی ملازمت مل گئی جہاں ان کی تنخواہ پہلے سے بھی زیاد تھی ۔انہوں نے اللہ کی اس کرم نوازی پر اس کا شکر ادا کیا۔ دورکعت نما

بہت زیادہ عمر رسیدہ ،مرنے کے قریب ( Bohat Ziada Omar Raseedha Marna Ke Kareeb)

تصویر
  بہت زیادہ عمر رسیدہ ،مرنے کے قریب  چاچا اکبربڑے مزے کے آ د می تھے۔ بیوی بچے ان کے تھے نہیں لہذا سارا سارا دن اِدھر اُدھر گھومتے رہتے۔اپنے مکان کا ایک حصہ انہوں نے کراۓ پر دیا ہوا تھا جس کے کراۓ سے وہ اپنا گزر بسر کرتے ۔ چاچا اکبر کی عمر ساٹھ سال سے کچھ زیادہ ہی تھی مگر دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے بیس سال چھوٹے نظر آتے۔ "چاچا کوئی کام کاج ہی کرلو ،سارا دن گھومتے پھرتے نظر آ تے ہو،" نوازنے جو چاچا   اکبر  کا پڑوسی تھا ایک دن چا چا کوروک کر کہہ ہی دیا۔  برخوردار گھومنا پھرنا بھی تو کام ہی ہے ، اور اب ویسے بھی ہم تو ’’پاؤں قبر میں لٹکاۓ بیٹھے ہیں‘‘ بھلا اس عمر میں اب کسی کی کیا نوکری کر یں گے‘ چا چا نے اپناہاتھ نچاتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گئے ۔ نواز چاچا اکبر کو جاتے ہوۓ دیکھ کر خودہی شرمندہ ساہوکررہ گیا۔

رسی جل گئی پر بل نہیں گیا (Rassi Jal Gai Per Bal nhi Gya)

تصویر
  رسی جل گئی پر بل نہیں گیا  سیٹھ ہارون ایک زمانے میں شہر کے سب سے رئیس آدی تھے مگر کاروبار میں  مسلسل نقصان کی وجہ سے اب ان کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی تھی ۔ کئی لوگوں کے مقروض ہو چکے تھے اس کے باوجود بھی ان میں اکڑ وہی پہلے والی تھی۔ بات بات پر غصہ ہونا اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھنا انہوں نے اب بھی نہیں چھوڑا تھا۔ سیٹھ ہارون کی ان ہی عادتوں کو دیکھ کر اکثر لوگ آپس میں ان کے بارے میں تبصرہ کرتے اور کہتے کہ سیٹھ ہارون کی دولت چلی گی مگر غرور نہیں گیا، کوئی کہتا: "رسی جل گئی پر بل نہیں گیا"۔   سیٹھ ہارون کے دل میں غریبوں کی محبت ہی نہیں تھی ان کا دل تو محبت سے خالی تھا۔ دل رکھنے والے لوگ اس دنیا میں ایک نہیں کئی ہیں مگران کا کوئی نہیں ہوتا۔ لوگ اس کے ہوتے ہیں جو سب سے محبت کرتا ہو۔

ایسی با تیں سب جانتے ہیں (Essi Baatein sab Jante Hain)

تصویر
  ایسی با تیں سب جانتے ہیں  چودہ اگست کا دن جب آیا تو سب ہی خوش تھے۔ پاکستان کی آزادی کا دن ۔ اس دن سب ہی کی طرح کامران اور اس کے گھر والے بھی بہت خوش  تھے۔ کامران نے تو اپنے پورے گھر میں ہری جھنڈیاں لگا رکھی تھیں اور سارا دن ملی گانے گاتا پھررہا تھا حالانکہ اس سے پہلے کسی نے کامران کو گاتے نہیں سنا تھامگر بھلا "گا نارونا کس کونہیں آتا "اور پھر دن بھی جب آزادی کا ہو تو دل خوش ہو تاہی ہے۔ کامران بھی اپنی خوشی کا اظہارقومی گا نے گاکر کر رہا تھا۔ صبح کے وقت اپنے اسکول میں بھی کامران نے قو می گانے سنائے تھے اور اسے انعام بھی ملاتھا۔ کامران جب اپنا انعام لے کر گھر آیا تو سب نے ہی اسے مبارک باد دی ۔ کامران اسکول سے آنے کے بعد دن بھر اپنے دوستوں کے ساتھ قومی جنڈاہاتھ میں تھا مے بابر گھومتارہا۔ اسے آزادی جیسی نعت کا احساس تھا اس لئے وہ آزادی کے اس دن کو بھر پور طریقے سے منارہا تھا۔