اشاعتیں

poetries لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے Ghalti Koi Kare Aur Uski Saza Kisi Aur Ko Miley

تصویر
  غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے  یاور اور نواز کی صورتیں کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی تھیں اکثر ایسا بھی ہوتا کہ یاور کی غلطیوں اور شرارتوں کی سزا بچارے نواز کو ملتی۔ یاور اور نواز دونوں جڑواں بھائی تھے۔ یاور بہت حد تک شرارتی تھا جبکہ نواز سیدھا لڑکا تھا۔ ایک دن شب برات کی موقع پر گلی میں کچھ لڑکے پٹاخے پھوڑ رہے تھے۔ یاوربھی ان لڑکوں میں شامل تھا۔ پٹاخے چھوڑنے کی وجہ سے محلے کے لوگ پریشان نظرآ رہے تھے اس لئے وہ ان لڑکوں کو ڈانٹنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلے تو سارے لڑکے بھاگ گئے۔ محلے کے ایک شخص نے یاوراور نواز کے گھر میں شکایت کردی کہ نواز پٹاخے چھوڑ رہا ہے۔ نواز کے ابو نے نواز کوخوب ڈانٹ پلائی جبکہ یاور دوسرے کمرے میں چھپا بیٹھا تھا اور نواز ابو کی ڈانٹ کے کھاتے وقت سوچ رہاتھا کہ گناہ بھی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی کو ملے ۔

بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی Bewakof Ki Khas Nishani Nhi Hoti

تصویر
  بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی  میری بات پر یقین کرو، جنگل میں خزانہ دفن  ہے عباس نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوۓ کہا۔ تم خواہ مخواہ کی بات کر ر ہے ہو، یہ بھلا کیسےممکن ہے؟ قاسم نے تعجب کا اظہار کر تے ہوۓ کہا۔ عباس اور قاسم گہرے دوست تھے ۔ عباس کوکسی طرح یہ بات معلوم ہوئی کہ جنگل میں خزانہ دفن ہے اس لیے وہ اپنی بات پر اصرار کر رہا تھا جبکہ قاسم کو اس بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ دونوں دوست اس معاملے پر کافی دیر سے بحث کر ر ہے تھے ۔ ’’تم مجھے بے وقوف لگتے ہو قاسم نے عباس کی طرف غور سے دیکھتے ہوۓ کہا۔ کیا میں تمہیں بے وقوف لگتا ہوں؟‘‘عباس نے مصنوعی غصے سے پوچھا۔ کیوں؟ بے قوف کے سر پر کیا سینگ ہوتے ہیں؟ قاسم نے عباس کوایک بار پھر غور سے دیکھتے ہوۓ کہا اب توعباس کو جیسے واقعی غصہ آ گیا وہ قاسم کو مارنے کے لیے اس کی طرف بھاگا مگرقاسم پہلے سے ہی تیار تھا وہ وہاں سے بھاگ گیا اور عباس منہ پھلاۓ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

چور بندر Chor Bandar

تصویر
چور بندر  نعیم اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنی خالہ کے گھر کچھ دن رہنے کے لئے گیا۔ اس کی خالہ شہر سے دور ایک گاؤں میں رہتی تھیں ۔ جس گاؤں میں اس کی خالہ رہتی تھیں وہاں بہت سے بند ربھی تھے جو پورے گاؤں میں خوب شرارتیں کرتے پھرتے- شام کے وقت نعیم اپنے کزن کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا ، اتنے میں اچانک ایک بندرنعیم کا چھوٹا بلا اور گیند اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو نعیم نے بہت شورمچایا نعیم کے شور مچانے پر گاؤں کے کچھ لوگوں نے بندر کا پیچھا کیا بندربھاگتے بھاگتے نعیم کی گیندتو پھینک گیا مگر بلا لے کر بھاگ نکلا۔ نعیم ا پنی گیند ہاتھ میں لئے اور بلے کے چھن جانے پر افسوس کے ساتھ بندرکو بھاگتے ہوۓ دیکھتارہا۔ بیٹا افسوس نہ کرو، یہ بندر ہیں ہی بڑے شرارتی ،شکر کرو کہ تمہاری گیند چوڑگیا ۔ گاؤں کے ایک شخص نے نعیم  کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ کر دلاسہ دیتے ہوۓ کہا۔ ہاں بیٹا ! بس یوں سمجھ لو کہ’ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ دوسرے شخص نے نعیم سے کہا اورنعیم منہ بناتا ہوا اپنی خالہ کے گھر چلا گیا۔

باد شاہ کا حکم Badshah Ka Hukum

تصویر
  باد شاہ کا حکم  گھوڑوں کی آوازوں سے لگتا تھا ۔ کہ جیسے بستی میں زلزلہ آ گیا ہو۔ گھوڑوں پر سوارلوگ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوۓ بستی میں داخل ہوۓ ۔ "بستی کا سردار کہاں ہے"؟ بستی میں داخل ہوکرایک گھوڑے سوار نے ( ادھرادھر نظر دوڑاتے ) ہوۓ کہا۔ "میں ہوں بستی کا سردار کیا بات ہے"؟ بڑی عمر کا ایک شخص آگے بڑھا۔ "تمہیں بادشاہ نے اپنے دربار میں بلایا ہے، ابھی اوراس وقت پہنچو"۔ گھوڑے سوار نے کہا اور پھر سارے گھوڑے سواراپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوۓ واپس روانہ ہو گئے ۔" بابا آخر بادشاہ نے آپ کو کیوں بلایا ہوگا" سردار کے بیٹے نے پوچھا۔ "مجھے کیا خبر، مجھے تو اب جلدی سے جاناہی ہو گا کیوں کہ حاکم کا ملازم ہمیشہ جلدی ہی کرتا ہوا آ تا ہے" ۔ سردار نے کہا اور پھر وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے جلدی جلدی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔

سبنری بازار (Sabzi Bazar)

تصویر
سبزی بازار  نومی سبزی  بازار میں سبزیوں کا ٹھیلا لگا تا تھا۔ اس کے ساتھ اور دیگر لوگ بھی مختلف اشیاء کے ٹھیلے لگاتے ۔ سبزی  بازارہی میں کچھ کی دکانیں بھی تھیں جن پر سبزیاں اور دیگر اشیاء ملتیں ۔  سبزی بازار میں ٹھیلے والوں کو اکثر پولیس والے تنگ کرتے تھے۔ جبکہ پکی دکانوں کے مالکان کو کہ جنہوں نے اپنا سامان دکان سے باہر بھی رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے چلنے پھرنے والوں کو تکلیف بھی ہوتی تھی اس کے باوجود پولیس والے دکان والوں کوتو کچھ نہ کہتے البتہ ٹھیلے والوں کوخوب کھری کھری سناتے اور ٹھیلے والے بے چارے اپنے ٹھیلے آ گے پیچھے کرتے رہتے ۔ پولیس کے اس رویے پرا کثر ٹھیلے والے ایک دوسرے سے کہتے ’غریوں پر سب کا زور چلتا ہے ،غریب کو جو چا ہے کھری کھری سنادے یاد بادے کوئی پوچھنے والانہیں۔ "ہاں بھائی ٹھیک کہتے ہو" غریب کی جوروسب کی بھابی ۔ دوسرے ٹھیلے والے نے کہا اور سب ہی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی ۔

جس کی چیز ہواسی کا نام ہوتا ہے (Jis ki Cheez ho Ussi ka Nam Hota Hai)

تصویر
  جس کی چیز ہواسی کا نام ہوتا ہے  جنگل کے قریب ایک چرواہا بکریاں چرار ہا تھا ۔ بکریوں کے ریوڑ سے ایک بکری کہیں ۔ غائب ہوگئی اور اب بے چارا چرواہ فکرمند بیٹھا تھا۔ چرواہا نے سوچا چلوقریب کے گاؤں جاکر معلوم کرتے ہیں شاید اس کی بکری راستہ بھٹک کر وہاں چلی گئی ہواس خیال کے آتے ہی چرواہا -  اپنی بکری کی تلاش میں گاؤں جا پہنچا۔ گاؤں پہنچ کر چرواہا نے وہاں کے لوگوں سے اپنی کھوئی ہوئی بکری کے بارے میں پوچھا اتفاق سے اس گاؤں کے ایک آدمی کو وہ بکری مل گئی تھی ۔ وہ آ دی شریف تھالہذا اس نے بکری واپس کر دی ۔ چرواہا نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراپنی بکری لے کر واپس لے کر گاؤں چلا گیا۔  

وہ خاتون جو گھر کے سارے کام خودہی کرتی ہوں (Wo Khatoon Jo Ghar Ke Sarey Kam Khud Hi Karti Hain)

تصویر
 وہ خاتون جو گھر کے سارے کام خودہی کرتی ہوں  خالہ محمودہ کا اس دنیا میں کوئی تھا ہی نہیں ۔ان کے شوہر کا انتقال بہت پہلے ہو چکا تھا اوراولاد بھی ان کی کوئی نہیں تھی ۔اپنے گھر میں وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں ۔ اکیلے  پن سے گھبرا کر وہ اکثر آس پڑوس کے گھروں میں بیٹھ جایا کرتیں اور ادھر ادھر کی  با تیں کر کے اپناوقت پاس کر تیں ۔ خالہ محمودہ کی وہی مثال تھی کہ "آپ ہی بی بی آپ ہی باندی" اپنے گھر کے سارے کام خود ہی کرتیں ۔ خالہ محمودہ کبھی کبھی اپنے اکیلے پن سے گھبرا ا بھی جاتیں ۔ ایک دن انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے گھر میں پرندے اور کچھ پالتو جانور پال لیے جائیں تا کہ ان کی دیکھ بھال میں وقت اچھا گز رجاۓ ۔ یہ سوچ کر خالہ محمودہ نے مختلف قسم کے پرندوں کے ساتھ ساتھ ایک بکری اور ایک دنبہ بھی خریدلیا۔ پرندوں اور پالتو جانوروں کو گھر میں لے آنے کے بعد خالہ محمودہ کا وقت اب پہلے سے بہت اچھا گزرنے لگا۔ پرندوں کی آواز سے ان کے گھر میں رونق سی ہوگئی وہ پرندوں اور جانوروں کی خدمت کر کے ایک خوشی محسوس کرنے لگیں اور ان کا وقت بھی اچھا گز رنے لگا۔

ایسی با تیں سب جانتے ہیں (Essi Baatein sab Jante Hain)

تصویر
  ایسی با تیں سب جانتے ہیں  چودہ اگست کا دن جب آیا تو سب ہی خوش تھے۔ پاکستان کی آزادی کا دن ۔ اس دن سب ہی کی طرح کامران اور اس کے گھر والے بھی بہت خوش  تھے۔ کامران نے تو اپنے پورے گھر میں ہری جھنڈیاں لگا رکھی تھیں اور سارا دن ملی گانے گاتا پھررہا تھا حالانکہ اس سے پہلے کسی نے کامران کو گاتے نہیں سنا تھامگر بھلا "گا نارونا کس کونہیں آتا "اور پھر دن بھی جب آزادی کا ہو تو دل خوش ہو تاہی ہے۔ کامران بھی اپنی خوشی کا اظہارقومی گا نے گاکر کر رہا تھا۔ صبح کے وقت اپنے اسکول میں بھی کامران نے قو می گانے سنائے تھے اور اسے انعام بھی ملاتھا۔ کامران جب اپنا انعام لے کر گھر آیا تو سب نے ہی اسے مبارک باد دی ۔ کامران اسکول سے آنے کے بعد دن بھر اپنے دوستوں کے ساتھ قومی جنڈاہاتھ میں تھا مے بابر گھومتارہا۔ اسے آزادی جیسی نعت کا احساس تھا اس لئے وہ آزادی کے اس دن کو بھر پور طریقے سے منارہا تھا۔

دنیا کو تبدیل نہ کریں (Duniya ko Tabdeel na Karein)

تصویر
  دنیا کو تبدیل نہ کریں ایک زمانے میں ، ایک بادشاہ تھا جو خوشحال ملک پر حکومت کرتا تھا۔ ایک دن ، وہ اپنے ملک کے دور دراز علاقوں کے دورے پر گیا۔ جب وہ وہ اپنے محل میں واپس آیا تو ، اس نے شکایت کی کہ اس کے پاؤں میں تکلیف ہو رہی ہے ، کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب وہ اتنے لمبے سفر کے لئے گیا تھا ، اور سڑک  سے گزرنا نہایت ہی مشکل تھا۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ لوگ ملک کی ہر سڑک کو چمڑے سے ڈھانپیں۔ یقینی طور پر ، اس میں ہزاروں گایوں کی جلد کی ضرورت ہوگی ، اور اس کی قیمت بھی بہت ہوگی تب اس کے ایک عقلمند نوکر نے ہمت کر کے بادشاہ سے کہا ، کیوں؟  آپ غیر ضروری رقم کو خرچ کر رہے ہیں؟  اپنے پیروں کو ڈھانپنے کے لئے چمڑے کے ایک"جوتا" چھوٹے سے ٹکڑے سے بن والیں؟  بادشاہ حیرت زدہ تھا ، لیکن اس کے بعد ، اس کی تجویز پر راضی ہوگیا ۔ حقیقت میں اس کہانی میں زندگی کا ایک قیمتی سبق ہے دنیا جینے کے لئے خوش کن مقام ہے ، آپ خود کو بہتر طور پر بدلیں لیکن دنیا کو نہیں۔

مسافراور چنار کا درخت (Musafir Or Chinaar Ka Darakht)

تصویر
مسافراور چنار کا درخت ایک دن موسم گرما میں  دو آدمی ساتھ چل رہے تھے۔ جلد ہی گرمی بہت بڑھ گئی قریب ہی چنار کا ایک درخت دیکھ کر ، اس کے سائے میں آرام کرنے کے لئے دونوں درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ شاخوں کی طرف نگاہ ڈال کر ایک شخص نے دوسرے  شخص سے کہا: کیا بیکار درخت ہے یہ ؟   اس میں پھل یا میوےکچھ  بھی نہیں ہیں جسے ہم کھا سکیں یہاں تک کہ اس کی لکڑی کو کسی بھی چیز کے استعمال میں نہیں لے سکتے       "!درخت نے جواب میں کہا " اتنےناشکرے مت بنو  !میں آپ کیلئے اس وقت بے حد مفید  ہوں ، آپ کوسورج کی گرمی سے بچا رہا ہوں " اور آپ مجھے فضول درخت کہتے ہیں اللہ کی تمام تخلیقات کا کچھ مقصد ہے۔  :اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہےکہ ہمیں ہمیشہ اللہ کی نعمتوں کا شکرا ادا کرنا چاہئے

توبہ(Tuba)

تصویر
 توبہ ایک شخص نے ایک بار ایک متقی مسلمان کو یہ کہتے سنا کہ "آخری تیس برسوں سے  میں گناہ کے لئے توبہ کر رہا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کس طرح معاف کرے گا مجھے اس کے بارے میں بتائیں؟ " سننے والے نے پوچھا: "آپ کا کیا گناہ تھا؟" متقی مسلمان نے کہا: “ میری بازار میں ایک دکان تھی۔ ایک دن میں نے سنا کہ پورا بازار جل رہا ہے تو میں اپنی دکان دیکھنے کے لئے بھاگ گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میری دکان کے علاوه ساری دکانیں زمین پر مسمار ہوگئیں . میں نے کہا "الحمدالله " (تمام تعریف اللہ کی) ہےلیکن فوراً ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ جب میں ہوں تو اپنے آپ کو مسلمان کیسے کہہ سکتا ہوں میرے پڑوسیوں کے نقصان کو محسوس نہیں کر سکتے ہوں؟ اس لیے  میں توبہ کر رہا ہوں یہ پچھلے تیس سالوں سے میری  متوجہ ہے ۔

پرانا قبرستان(Porana Qabrustan)

تصویر
  پرانا قبرستان ایک دن ، اکبر نے اپنے دوستوں سے کہا: "اگر میں مر گیا تو مجھے بوڑھے  قبرستان میں دفن کرنا  "کیوں ، اس کے دوستوں نے پوچھا۔ "کیونکہ" ، اس نے وضاحت کی ، "اگر فرشتے آ ئے ، میں انھیں بتاؤں گا کہ میں سالوں پہلے ہی مر گیا تھا اور میری پہلے سے پوچھ گچھ ہو گئی ہے اور پھر وہ جس طرح آئے تھے واپس چلےجائیں گے۔

بندر اور ڈولفن (Bandar or Dolphin)

تصویر
  بندر اور ڈولفن ایک دن پہلے ، کچھ ملاح اپنے جہاز میں سمندر کے لئے نکلے تھے۔ ایک طویل سفر کے لئے اپنے پالتو بندر کو ساتھ لے کر آئے  جب وہ سمندر سے باہر تھے تو ایک خوفناک طوفان نے انہیں الٹ ڈالا ہر ایک جہاز سے سمندر میں گر گیا ، اور بندر کو یقین تھا کہ وہ گرے گااچانک ڈولفن نمودار ہوئی اور ا س نے بندر کو اٹھایا۔ وہ جلد ہی جزیرے پر پہنچے اور بندراترا ڈالفن نے بندر سے پوچھا ، "کیا آپ کو یہ جگہ معلوم ہے؟ بندر نے جواب دیا ، ہاں ، میں جانتا ہوں۔ در حقیقت ، جزیرے کا بادشاہ میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں ایک شہزادہ ہوں؟ ”یہ جانتے ہوئے کہ جزیرے پر کوئی نہیں رہتا ہے ، ڈولفن نے کہا ،" ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے! ، سو آپ ایک شہزادہ ہیں! اب آپ بادشاہ بھی بن سکتے ہیں بندر نے پوچھا ، میں بادشاہ کیسے بن سکتا ہوں؟ جب ڈولفن نے تیرنا شروع کیا تو اس نے جواب دیا ، یہ آسان ہے۔ چونکہ اب آپ اس جزیرے پر آپ واحد مخلوق ہیں ، آپ فطری طور پر ایک بادشاہ ہوجائیں گے جھوٹ بولنے اور فخر کرنے والے مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔

ریت اور پتھر(Raet or Phattar)

تصویر
  ریت اور پتھر ایک کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دودوست صحرامیں سے گزر رہے تھے۔ دوران سفر کے کچھ مقام پر بحث ہوئی،اورایک دوست نے دوسرے دوست کوتھپڑ مارا دوسرے چہرہ تھپڑ لگنے سے زخمی ہوا،لیکن اس نے بغیر کچھ بھی کہہ،ریت میں لکھا:"آج میرے بہترین دوست   نے میر ے   چہرے پر تھپڑ مار ا   وہ چلتے رہے یہاں تک کہ انہیں نخلستان نہ ملے  جہاں انہوں نے فیصلہ کیا نہانا. وہ ، جسے تھپڑ مارا گیا تھا،وہ دلدل میں پھنس گیا اور ڈوبنے لگا ، لیکن دوست نے اسے بچایا۔ قریب قریب ڈوبنے سے دوست کے ٹھیک ہونے کے بعد ، اس نے ایک پتھر پر لکھا: "آج ہی میرے بہترین دوست نے میری زندگی کو بچایا۔ " جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور اپنے بہترین دوست کو بچایا تھا اس نے اس سے پوچھا  میں نے تمہیں تکلیف دینے کے بعد ، تم نے ریت میں لکھا اور اب ، تم پتھر پر لکھتے ہو  کیوں؟ دوسرے دوست نے جواب دیا: "جب کوئی ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے تو ہمیں اسے ریت پر لکھنا چاہئے نیچے ریت میں جہاں معافی کی ہوائیں اسے مٹا سکتی ہیں۔ لیکن ، جب کوئی ہمارے لئے کچھ اچھا کرتا ہے ، ہمیں اسے پتھر میں کندہ کرنا ہوگا کوئی ہوا کبھی اسے مٹانہیں سکتی۔  

کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا ( Kam Himmat ka Apny Ilaqey mai Bahadur Ban Jana )

تصویر
  کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا  راحیل میاں سیدھے سادھے تھے اور بڑے ہی بھولے بھالے سے بچے تھے۔ آٹھویں کلاس میں پڑھتے لیکن اپنی معصومانہ باتوں کی وجہ سے یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی چوتھی کلاس ہی میں ہوں ۔ راحیل میاں کے سا دے پن کی وجہ سے بہت سے بچے اس سے شرارت کرتے اور کلاس میں ا اسے تنگ کرتے کئی بار تو اسکول کے میدان میں کھیلتے ہوئے کچھ شرارتی بچے اسے دھکا بھی دے دیتے مگر وہ ان سے کچھ بھی نہیں بول پاتا بلکہ گھر آ کر اپنی امی سے کہتا کہ اسے بچے تنگ کرتے ہیں ان بچوں کی شکایت کرتا ۔ راحیل کے امی ابو کوبھی راحیل کے بھولے پن کا معلوم تھا۔ وہ اسے سمجھادیتے اورراحیل میاں یوں سر ہلاتے جیسے انہیں سب کچھ سمجھ میں آ گیا ہو ۔ راحیل کا کئی بار تو دل چاہتا کہ وہ ان شرارتی بچوں کی خوب ٹھکائی لگائے لیکن وہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ گھر سے اسکول بہت دور ہے اگر یہاں وہ کسی سے لڑ ئی کرے گا تو پھر سارے شرارتی بچے ایک ہو جائیں گے اور الٹا اسے ہی ماریں گے ۔  ایک دن راحیل چھٹی والے دن اپنی گلی میں کھیل رہاتھا کہ اس کی نظر اپنے اسکول کے اس شرارتی لڑکے پر پڑی جو راحیل  کو اسکول میں بہت تنگ کرتاتھا اور ک

بہت زیادہ غصہ کرنا (Buhat Ziada Gusa Karna)

تصویر
  بہت زیادہ غصہ کرنا  آدمی کے پاس اگر اپنی ذاتی سواری نہ ہو تو وہ بے چارہ بس  اور رکشے کےچکرمیں پریشان  ہوتا رہتا ہے۔ وہاب صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ تھا۔ ان کے پاس ایک بہت پرانی سی گاڑی تو تھی مگر اب کئی دنوں سے وہ خراب پڑی تھی اس میں چونکہ کام بھی بہت تھا  لہذاوہاب صاحب نے گاڑی ایسے ہی رہنے دی ۔ وہ روز بس کے ذریعے آفس پہنچتے کبھی تو وقت پر پہنچ جاتے اور بھی دیر سے۔  ایک دن  وہاب  صاحب کے افسر نے کسی دوسری کمپنی کے افسران کو اپنے آفس میں ایک انتہائی اہم مسئلہ پر گفتگو کرنے کے لئے بلایا اور وہاب  صاحب کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ شہر کے باہر سے آنے والے افسران کو اپنی کمپنی کے کام کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کریں گےاور وقت سے پہلے پہنچ کر آفس میں چائے وغیرہ کا بھی انتظام کریں گے۔   وہاب  صاحب آفس جلدی پہنچنے کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے کپڑے استری کے لئے نکالے تو اچانک لائٹ ہی چلی گئی اب تو وہ گھبرائے کہ پتہ نہیں لائٹ کب آئے گی اور انہیں آفس پہنچنے میں دیر ہو جائے ، خداخدا کر کے لائٹ آئی تو انہوں نے جلدی جلدی کپڑے استری کیے اور آفس جانے کے لئے روانہ ہو گئے۔  وہ بہت دیر

بہت مہنگائی ہوگئی ہے(Buhat Mahengai Hogai Ha)

تصویر
 بہت مہنگائی ہوگئی ہے  آج عمر کی سالگرہ تھی۔ اس کے ابو نے تمام انتظامات مکمل کر لئے تھے- صرف ایک بکرا لینے جانا تھا کہ اسے ذبح کر کے مہمانوں کے کھانے کا انتظام کیا جا سکے۔ ابو میں آپ کے ساتھ بکرا لینے چلوں  عمر  اپنے ابو سے پوچھا۔ ہاں! بیٹا چلو دونوں باپ بیٹا بکرا خریدنے کے لئے جانوروں کی منڈی پہنچے پھر جلدی ہی انہیں ایک بہت اچھا بکرا مل گیا جو اس کے ابو نے پانچ ہزار میں خرید لیا۔    ابو  بکرا تو بہت شاندار ہے  پانچ ہزار  میں مہنگا تو نہیں نا عمر نے اپنے ابو سے پوچھا۔ ہاں بیٹا واقعی پانچ ہزار میں بہت اچھا بکرا مل گیا ہے۔ اس کے اہونے کہااور پھر وه بکرالے کر اپنے گھر لے آئے شام میں اس بکرے کو ذبح  کر کے اور اس کی بوٹیاں بنا کر دیگ میں چڑھائی گئیں اور سب مہمانوں نے مزے مزے سے رات کا کھانا کھایا - ہر کوئی عمرکو سالگرہ کی مبارکباددے رہا تھا۔  دن گزرتے گئے اور پھر تین مہینے بعد ہی عید قرباں آ گئی ، عمر کو عید  قریاں بڑی پسند تھی۔ اسے جانور ذبح ہوتے دیکھنے کو جو ملتے اور پھر وہ خود بھی تو اپنے ابو کے ساتھ بکرا خریدنے جاتا تھا۔ اس دن بھی وہ اپنے ابوکے ساتھ بکرا خریدنے گیا مگر مناسب قیمت پر انہ

قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا(Qareebi Sathi Ka Dushman Banna Ya Bura Chahna)

تصویر
 قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا   بہت دن پہلے کی بات ہے ملک مصر پرایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ بادشاہ اپنے سب ہی وزیر پر یقین کرتا تھا لیکن ان میں ایک وزیر جس کا نام نعمان تھا ا سے بادشاہ بہت پسند کرتا اور حکومتی معاملے میں   نعمان  سے اکثر مشورے لیا کر تا  نعمان  کی نیت کا بادشاہ کو ہرگز کو ئی علم نہیں تھا وہ اس پر بہت بھروسہ کرتا جبکہ  نعمان  کسی نہ کسی طرح بادشاہ کی حکومت کا تختہ گرا کر خود بادشاہ بننا چاہتا تھا۔  دن یوں ہی گزرتے گئے ۔ وزیر  نعمان  نے اپنے ساتھ کچھ اور وزیروں کوبھی ملا لیا اورانہیں ساتھ دینے پر انعام کا لالچ بھی دیا۔ بہت سے وزیر انعام و اکرام کی لالچ میں  نعمان  سے مل گئے اور پھر ایک دن  نعمان  نے بادشاہ ختم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا۔  ہوا یوں کہ جب بادشاہ اپنی رعایا کا حال معلوم کر نے کے لئے اپنے وزیروں کے ساتھ ایک قافلے کی صورت میں باہر نکلا تو وزیر  نعمان  نے بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت تقریب کسی جنگل میں بڑے ہی نایاب تیتر آئے ہوئے ہیں کیوں نہ ان کا شکار کیا جائے ۔  بادشاو تیتروں کا بہت شوقین تھا لہذا اس نے حامی بھرلی اور پھر یہ سب جنگل میں تیتروں کا شکار

ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا (Ek Musibat Ke Bad Dosri Musibat Mai Pasna)

تصویر
  ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا     واجد کو کسی کام کے سلسلے میں کراچی جانا تھا ۔ (  کراچی  کے لئے گاڑی کو ٹھیک آٹھ بجے روانہ ہونا تھا) اور ابھی صرف چھ بجےتھے۔  واجد  ایک بیگ میں اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب سامان پیک ہوگیاتو واجد  نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور اسے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔  ڈنگ.... ڈونگ..." دروازے پر بیل کی آواز سن کر واجد نے دروازہ کھولا تو اکمل  کھڑا تھا۔ " کیا پروگرام ہے جناب  اکمل  نے بولا۔ یار اکمل تمہیں تو معلوم ہے کہ آج میں رات آٹھ بجے والی ٹرین سے کراچی جا رہا ہوں ۔ تم ایسا کرو کہ مجھے اپنی موٹرسائیکل پر اسٹیشن تک چھوڑ دو زرا کمپنی رہے گی ۔ واجد نے بولا  اور پھر ساڑھے چھ بجے کے قریب  واجد ، اکمل  کے ساتھ  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہو گیا۔    موٹر سائیکل  نے تھوڑا فصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک بند ہو گی ۔   اکمل   موٹر سائیکل  کو ایک طرف کھڑی کر کے اسے دیکھنے لگا ۔ ذرا جلد ی کرو ۔  واجد  نے بے قراری سے کہا۔ تقریبا بیس منٹ کے بعد  موٹر سائیکل  پھر دوبارہ اسٹارٹ ہو گئی اور دونوں  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ابھی یہ دونوں صدر کے علاقے تک ہی پہنچے تھ

کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا(Kisi Cheez ka Miqdar Mai Bohat Kam Milna)

تصویر
  کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا  کمال بڑی محنت سے لیڈ یز جوتے بناتا اور پھرتیار کئے ہوئے جوتے  دکانداروں کو دیتا۔  کمال  نے   جوتے  بنانے کے لئے اپنے پاس کچھ کاریگر بھی رکھے ہوئے تھے جو اس کے ساتھ مل کر یہ  جوتے تیار کرتےاور ہر ہفتے یہ لیڈیز   جوتے  دکانوں پر لے جا تا۔ کوئی بھی دکاندار  کمال  کو سارے   جوتے  کی قیمت ایک ساتھ نہیں دیتا تھا بلکہ طریقہ کار یہ تھا کہ  کمال  ہر ہفتہ آٹھ سے دس ہزار روپے مالیت تک کے کئی  لیڈ یز جوتے  تیار کر کے  دوکانوں پر دیتا اور دکاندار ہر ہفتہ اسے صرف ہزار روپے دیتے ۔ یہ ایک ہزار روپے تو کاریگروں کو دینے میں بھی کم پڑتے-  کمال  مزید رقم بینک سے نکلواتااوریوں کاریگروں کی اجرت کے پیسے پورے کرتا۔  کمال  صرف یہی سوچتا کہ "میرے پیسے دکانداروں پرچڑھ ہی رہے ہیں, سال میں ایک بارعید کے موقع پرتو دوکاندار حساب پورا کر ہی دیتے ہیں کم از کم اس طرح میرا کا رو با ر تو چل رہا ہے"۔ کمال  کا کام اسی طرح چلتا رہا اور اب تو دکانداروں پرکئی ہزار روپے ہو گئے تھے اور کمال  کو صرف ایک ہزار روپے ہی ملتا رہا۔ ایک دن  کمال  نے اپنے دوست سے  تذ کرہ کرتے ہوئے کہا "