اشاعتیں

phrases لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آفت کے آثار پہلے سے نظر آ نا Aafat Ke Asaar Pehle Se Nazar Ana

تصویر
  آفت کے آثار پہلے سے نظر آ نا  بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کسان پہلے ہی پریشان تھے - اب کچھ دنوں سے جو فصل تیارتھی اس پر ٹڈیوں نے آ نا شروع کر دیا تھا۔  بھائی دعا کرو جلد بارش ہو جاۓ ، اب تو ٹڈیاں بھی آنے لگی ہیں ۔ سمجھ لو کہ آنے والی آفت کے آثار نظر آرہے ہیں ’’ ٹڈی کا آ نا کال کی نشانی ‘‘ ہے۔ گاؤں کے ایک کسان نے فکر مند ہوتے ہوۓ دوسرے کسانوں سے کہا اور پھرسب ہی کسان رات بھراللہ تعالی سے بارش ہونے کی دعا کرتے رہے۔ دوسرے دن صبح ہی سے گاؤں پر بادل منڈلا رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے زورداربارش بھی ہوگئی ۔ بارش ہوتے ہی تمام کسانوں کے چہرے خوشی سے جھوم اٹھے ہرکوئی بارش ہونے پر خوشی سے ناچ رہا تھا ۔ تمام کسانوں نے بارش ہو نے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کیوں کہ اللہ کی رحمت سے اب گا ؤں والوں کو امید تھی کہ ان کی فصل بہت اچھی ہوگی اور ٹڈیوں کے کھیتوں سے واپس چلے جانے کے بعد ان کے کھیتوں کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

چور کے پیر کہاں Chor Ke Peaar Kahan

تصویر
 چور کے پیر کہاں   فیض بابا کے گھر گاؤں کے تقریباً سب ہی لوگ جمع تھے ۔ اور اپنے افسوس کا اظہار  کر رہے تھے ۔ ہوا یوں کہ فیض بابا کے گھر کل رات چوری ہوگئی تھی ۔ چوران کے گھر سے سارا سامان لے کر چلے گئے تھے- یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے لوگ فیض بابا سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کر رہے تھے ۔ فیض با با تم نے چورکود یکھا تھا ؟ ایک نے کہا۔ "نہیں " فیض بابا نے مختصر جواب دیا۔ ارے بھئی دیکھتے بھی کیسے"چور کے پیر کہاں" ۔ چورتو ذرا سا کھٹکا سن کرہی بھا گ جاتا ہے گاؤں کے ایک شخص نے اپنی رائے دیتے ہوۓ کہا۔    اور پھر کچھ دیر بعد سب ہی اپنے اپنے افسوس کا اظہا راور ہمدردی کر نے کے بعد ایک ایک کرکے واپس اپنے گھروں کو چلے گئے اور بے چارہ فیض بابا ایک بار پھر اپنے گھر میں تنہا بھیٹے چور کے متعلق سوچنے لگے ۔

غصہ والا لڑکا Guse Wala Larka

تصویر
غصہ والا لڑکا  بڑے بوڑھوں سے ہمیشہ ہی سنتے آۓ ہیں کہ غصہ حرام ہے مگر شاید رحیم نے یہ نہیں سن رکھا تھا اور اگرسن بھی رکھا تھا تو وہ اس پرعمل نہیں کرتا تھا ۔  ہر ایک سے غصہ میں بات کرنا اور بات بات پر ناراضگی کا اظہار کرنا اس کی تو جیسے عادت تھی ۔ ایک دن اس کے دوست نے رحیم سے کہا ــ "یا ر! رحیم آج تو کہیں پکنک منانے چلتے ہیں تم بتاؤ کدھر چلیں؟" میری بلا سے "جہاں سینگ سمائے چلے جاؤ"میں تو کہیں نہیں جاؤں گا ۔ رحیم نے حسب عادت غصے سے کہا بے چارہ اس کا دوست جو بڑی امیدوں کے ساتھ رحیم کے پاس آیا تھا اپنا سا منہ لے کر چلا گیا ۔ رحیم کے ہر وقت چڑ چڑے رہنے اورغصے کی عادت کی وجہ سے اس کے دوست اب آہستہ آہستہ اس سے کترانے لگے اور پھرایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب رحیم کا کوئی بھی دوست باقی نہیں رہا کیوں کہ جو غصے والے ہو تے ہیں ان سے کوئی بھی دوستی کرنا پسند نہیں کرتا ، پیاراوراخلاق سے ہی لوگوں کے دل جیتے جاتے ہیں۔

خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے Khuda Deta Ha Tu Chappar Phar kar Deta Ha

تصویر
 خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے   جب مہنگائی بہت زیادہ ہو تو گھر کا گزارا بڑی مشکل سے ہوتا ہے ۔ یہی حال کچھ فاروق کے ساتھ تھا۔ وہ دن میں کالج میں پڑھتا اور شام میں بچوں کے کھلونے فروخت کرتا۔ اس طرح وہ اپنے بوڑھے ماں، باپ کا پیٹ پال رہا تھا۔ فاروق ایک دن بازار میں کھلونے بیچ رہا تھا- تو اس نے دیکھا کہ ایک جگہ انعامی رقم کے ٹکٹ مل رہے ہیں فاروق نے بھی ایک سوروپے والا ٹکٹ خرید لیا۔ دن گزرتے گئے اور فاروق بچوں کے کھلونے فروخت کر کے اپنی تعلیم اور گھر کا خرچ پورا کرتارہا۔ ایک دن اخبار میں ان ٹکٹوں کے نمبر شائع ہوۓ جوانعامی رقم کے حوالے سےفاروق نے خریدا تھا۔ اس نے دھڑ کتے دل سے پہلے اپنے ٹکٹ کے نمبرکود یکھا اور پھر اخبار میں آنے والے نمبروں سے ملانے لگا۔ "وہ مارا....!"فاروق خوشی سے چلایا ۔ پہلا انعامی رقم کا نمبراس کے خریدے ہوۓ ٹکٹ سے مل گیا تھا۔ اب توفاروق کے وارے نیارے ہو گئے ۔ پورے محلے میں خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سب ہی محلے والے فاروق کوانعام نکلنے پر مبارک باد دے رہے تھے۔ واقعی سچ ہے کہ ’خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے‘۔

غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے Ghalti Koi Kare Aur Uski Saza Kisi Aur Ko Miley

تصویر
  غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے  یاور اور نواز کی صورتیں کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی تھیں اکثر ایسا بھی ہوتا کہ یاور کی غلطیوں اور شرارتوں کی سزا بچارے نواز کو ملتی۔ یاور اور نواز دونوں جڑواں بھائی تھے۔ یاور بہت حد تک شرارتی تھا جبکہ نواز سیدھا لڑکا تھا۔ ایک دن شب برات کی موقع پر گلی میں کچھ لڑکے پٹاخے پھوڑ رہے تھے۔ یاوربھی ان لڑکوں میں شامل تھا۔ پٹاخے چھوڑنے کی وجہ سے محلے کے لوگ پریشان نظرآ رہے تھے اس لئے وہ ان لڑکوں کو ڈانٹنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلے تو سارے لڑکے بھاگ گئے۔ محلے کے ایک شخص نے یاوراور نواز کے گھر میں شکایت کردی کہ نواز پٹاخے چھوڑ رہا ہے۔ نواز کے ابو نے نواز کوخوب ڈانٹ پلائی جبکہ یاور دوسرے کمرے میں چھپا بیٹھا تھا اور نواز ابو کی ڈانٹ کے کھاتے وقت سوچ رہاتھا کہ گناہ بھی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی کو ملے ۔

بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی Bewakof Ki Khas Nishani Nhi Hoti

تصویر
  بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی  میری بات پر یقین کرو، جنگل میں خزانہ دفن  ہے عباس نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوۓ کہا۔ تم خواہ مخواہ کی بات کر ر ہے ہو، یہ بھلا کیسےممکن ہے؟ قاسم نے تعجب کا اظہار کر تے ہوۓ کہا۔ عباس اور قاسم گہرے دوست تھے ۔ عباس کوکسی طرح یہ بات معلوم ہوئی کہ جنگل میں خزانہ دفن ہے اس لیے وہ اپنی بات پر اصرار کر رہا تھا جبکہ قاسم کو اس بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ دونوں دوست اس معاملے پر کافی دیر سے بحث کر ر ہے تھے ۔ ’’تم مجھے بے وقوف لگتے ہو قاسم نے عباس کی طرف غور سے دیکھتے ہوۓ کہا۔ کیا میں تمہیں بے وقوف لگتا ہوں؟‘‘عباس نے مصنوعی غصے سے پوچھا۔ کیوں؟ بے قوف کے سر پر کیا سینگ ہوتے ہیں؟ قاسم نے عباس کوایک بار پھر غور سے دیکھتے ہوۓ کہا اب توعباس کو جیسے واقعی غصہ آ گیا وہ قاسم کو مارنے کے لیے اس کی طرف بھاگا مگرقاسم پہلے سے ہی تیار تھا وہ وہاں سے بھاگ گیا اور عباس منہ پھلاۓ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

چور بندر Chor Bandar

تصویر
چور بندر  نعیم اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنی خالہ کے گھر کچھ دن رہنے کے لئے گیا۔ اس کی خالہ شہر سے دور ایک گاؤں میں رہتی تھیں ۔ جس گاؤں میں اس کی خالہ رہتی تھیں وہاں بہت سے بند ربھی تھے جو پورے گاؤں میں خوب شرارتیں کرتے پھرتے- شام کے وقت نعیم اپنے کزن کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا ، اتنے میں اچانک ایک بندرنعیم کا چھوٹا بلا اور گیند اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو نعیم نے بہت شورمچایا نعیم کے شور مچانے پر گاؤں کے کچھ لوگوں نے بندر کا پیچھا کیا بندربھاگتے بھاگتے نعیم کی گیندتو پھینک گیا مگر بلا لے کر بھاگ نکلا۔ نعیم ا پنی گیند ہاتھ میں لئے اور بلے کے چھن جانے پر افسوس کے ساتھ بندرکو بھاگتے ہوۓ دیکھتارہا۔ بیٹا افسوس نہ کرو، یہ بندر ہیں ہی بڑے شرارتی ،شکر کرو کہ تمہاری گیند چوڑگیا ۔ گاؤں کے ایک شخص نے نعیم  کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ کر دلاسہ دیتے ہوۓ کہا۔ ہاں بیٹا ! بس یوں سمجھ لو کہ’ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ دوسرے شخص نے نعیم سے کہا اورنعیم منہ بناتا ہوا اپنی خالہ کے گھر چلا گیا۔

سبنری بازار (Sabzi Bazar)

تصویر
سبزی بازار  نومی سبزی  بازار میں سبزیوں کا ٹھیلا لگا تا تھا۔ اس کے ساتھ اور دیگر لوگ بھی مختلف اشیاء کے ٹھیلے لگاتے ۔ سبزی  بازارہی میں کچھ کی دکانیں بھی تھیں جن پر سبزیاں اور دیگر اشیاء ملتیں ۔  سبزی بازار میں ٹھیلے والوں کو اکثر پولیس والے تنگ کرتے تھے۔ جبکہ پکی دکانوں کے مالکان کو کہ جنہوں نے اپنا سامان دکان سے باہر بھی رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے چلنے پھرنے والوں کو تکلیف بھی ہوتی تھی اس کے باوجود پولیس والے دکان والوں کوتو کچھ نہ کہتے البتہ ٹھیلے والوں کوخوب کھری کھری سناتے اور ٹھیلے والے بے چارے اپنے ٹھیلے آ گے پیچھے کرتے رہتے ۔ پولیس کے اس رویے پرا کثر ٹھیلے والے ایک دوسرے سے کہتے ’غریوں پر سب کا زور چلتا ہے ،غریب کو جو چا ہے کھری کھری سنادے یاد بادے کوئی پوچھنے والانہیں۔ "ہاں بھائی ٹھیک کہتے ہو" غریب کی جوروسب کی بھابی ۔ دوسرے ٹھیلے والے نے کہا اور سب ہی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی ۔

جس کی چیز ہواسی کا نام ہوتا ہے (Jis ki Cheez ho Ussi ka Nam Hota Hai)

تصویر
  جس کی چیز ہواسی کا نام ہوتا ہے  جنگل کے قریب ایک چرواہا بکریاں چرار ہا تھا ۔ بکریوں کے ریوڑ سے ایک بکری کہیں ۔ غائب ہوگئی اور اب بے چارا چرواہ فکرمند بیٹھا تھا۔ چرواہا نے سوچا چلوقریب کے گاؤں جاکر معلوم کرتے ہیں شاید اس کی بکری راستہ بھٹک کر وہاں چلی گئی ہواس خیال کے آتے ہی چرواہا -  اپنی بکری کی تلاش میں گاؤں جا پہنچا۔ گاؤں پہنچ کر چرواہا نے وہاں کے لوگوں سے اپنی کھوئی ہوئی بکری کے بارے میں پوچھا اتفاق سے اس گاؤں کے ایک آدمی کو وہ بکری مل گئی تھی ۔ وہ آ دی شریف تھالہذا اس نے بکری واپس کر دی ۔ چرواہا نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراپنی بکری لے کر واپس لے کر گاؤں چلا گیا۔  

ایسی با تیں سب جانتے ہیں (Essi Baatein sab Jante Hain)

تصویر
  ایسی با تیں سب جانتے ہیں  چودہ اگست کا دن جب آیا تو سب ہی خوش تھے۔ پاکستان کی آزادی کا دن ۔ اس دن سب ہی کی طرح کامران اور اس کے گھر والے بھی بہت خوش  تھے۔ کامران نے تو اپنے پورے گھر میں ہری جھنڈیاں لگا رکھی تھیں اور سارا دن ملی گانے گاتا پھررہا تھا حالانکہ اس سے پہلے کسی نے کامران کو گاتے نہیں سنا تھامگر بھلا "گا نارونا کس کونہیں آتا "اور پھر دن بھی جب آزادی کا ہو تو دل خوش ہو تاہی ہے۔ کامران بھی اپنی خوشی کا اظہارقومی گا نے گاکر کر رہا تھا۔ صبح کے وقت اپنے اسکول میں بھی کامران نے قو می گانے سنائے تھے اور اسے انعام بھی ملاتھا۔ کامران جب اپنا انعام لے کر گھر آیا تو سب نے ہی اسے مبارک باد دی ۔ کامران اسکول سے آنے کے بعد دن بھر اپنے دوستوں کے ساتھ قومی جنڈاہاتھ میں تھا مے بابر گھومتارہا۔ اسے آزادی جیسی نعت کا احساس تھا اس لئے وہ آزادی کے اس دن کو بھر پور طریقے سے منارہا تھا۔

دنیا کو تبدیل نہ کریں (Duniya ko Tabdeel na Karein)

تصویر
  دنیا کو تبدیل نہ کریں ایک زمانے میں ، ایک بادشاہ تھا جو خوشحال ملک پر حکومت کرتا تھا۔ ایک دن ، وہ اپنے ملک کے دور دراز علاقوں کے دورے پر گیا۔ جب وہ وہ اپنے محل میں واپس آیا تو ، اس نے شکایت کی کہ اس کے پاؤں میں تکلیف ہو رہی ہے ، کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب وہ اتنے لمبے سفر کے لئے گیا تھا ، اور سڑک  سے گزرنا نہایت ہی مشکل تھا۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ لوگ ملک کی ہر سڑک کو چمڑے سے ڈھانپیں۔ یقینی طور پر ، اس میں ہزاروں گایوں کی جلد کی ضرورت ہوگی ، اور اس کی قیمت بھی بہت ہوگی تب اس کے ایک عقلمند نوکر نے ہمت کر کے بادشاہ سے کہا ، کیوں؟  آپ غیر ضروری رقم کو خرچ کر رہے ہیں؟  اپنے پیروں کو ڈھانپنے کے لئے چمڑے کے ایک"جوتا" چھوٹے سے ٹکڑے سے بن والیں؟  بادشاہ حیرت زدہ تھا ، لیکن اس کے بعد ، اس کی تجویز پر راضی ہوگیا ۔ حقیقت میں اس کہانی میں زندگی کا ایک قیمتی سبق ہے دنیا جینے کے لئے خوش کن مقام ہے ، آپ خود کو بہتر طور پر بدلیں لیکن دنیا کو نہیں۔

بے ہنرلوگوں کے درمیان کم ہنر رکھنے والے کو اہمیت دینا (Be Hunar Logun Ke Darmiyan Kam Hunar Rakhne Wale Ko Ehmiyat Dena)

تصویر
  بے ہنرلوگوں کے درمیان کم ہنر رکھنے والے کو اہمیت دینا  گاؤں" شکار پور" میں کوئی بھی ڈاکٹر نہ تھا۔ لوگ جب بیمار پڑتے تو گاؤں سے اسپتال میں جا کر علاج کراتے۔ ایک دن گاؤں کے لوگوں نے سوچا کہ جس اسپتال میں وہ علاج کراتے ہیں وہاں سے کسی ڈاکڑ کو اپنے گاؤں لانے پر راضی کرتے ہیں ۔ یہ سوچ کر گاؤں کے کچھ لوگوں نے اسپتال میں ایک ڈاکٹر سے درخواست کی کہ وہ ان کے گاؤں میں آجائے تا کہ لوگوں کو وقت پر علاج میسر آجائے لیکن اس ڈاکٹر نے صاف انکار کر دیا۔ اسپتال میں ایک کمپاؤنڈر جو بہت سی چالاک تھا اس نے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ وہ ان کے گاؤں چل کر ایک کلینک کھول سکتا ہے اس طرح گاؤں کے لوگوں کو وقت پرعلاج میسر آجائے گا اور وہ اتنی دور آنے سے بچ جائیں گے ۔ کمپاؤنڈر بہت لالچی تھا اس نے سوچا تھا کہ چونکہ کوئی ڈاکٹر اس گاؤں میں نہیں ہے لہذا وہ خود کلینک کھول کر وہاں بیٹھ جاتا ہے اس طرح اس کا کام خوب چلے گا۔ گاؤں کے لوگوں کو اس صورت حال میں کہ جب کوئی ڈاکٹربھی ان کے گاؤں آنے پر تیار نہیں تھا یہ  کمپاؤنڈر کسی فرشتے سے کم نہیں لگا اس طرح وہ ان کے گاؤں آ گیا اور کلینک کھول کر لوگوں کا علاج کرنا شروع کر

پیاسا کوا (Piyasa Kawwa)

تصویر
 پیاسا کوا ایک دن ، ایک پیاسے کوا نے پانی کی تلاش میں پورے میدان میں اڑان بھری۔ ایک لمبے عرصے تک ، اسے کچھ نہیں مل سکا۔ اسے بہت کمزوری محسوس ہوئی   اچانک ، اس نے اپنے نیچے پانی کا گھڑا دیکھا۔ وہ سیدھے نیچے اُترا -  اس کے اندر پانی تھا کوے نے اپنے سر کوگھڑا میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ افسوس کی بات ہے ، وہ کر نہیں پایا   گھڑا بہت تنگ تھا۔ تب اس نے گھڑاکو نیچے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی پانی باہر بہنےلگا اسے پتہ چلا کہ جگہ بہت زیادہ ہے۔ کوا نے کچھ دیر خوب سوچا۔ پھر اس نے اپنے آس پاس دیکھتے ہوئے ، اسے کچھ کنکر دیکھ کر خیال آیا۔ اس نے کنکراٹھانا شروع کیے ایک ایک کر کے کنکریاں کو ، ایک جگہ کرتی گئی ۔ زیادہ سے زیادہ  کنکروں سے جگہ بھردی ، پانی کی سطح بڑھتی چلی گئی۔ جلد ہی یہ اونچی ہو گئی   اس کی منصوبہ بندی نے کام کیا- کوے نے پا نی پیا  اگر آپ کافی کوشش کرتے ہیں تو ، آپ کو جلد ہی آپ کا صلہ مل سکتا ہے

غلطیوں سے سیکھیں(Ghaltiyun se Sikhein)

تصویر
 غلطیوں سے سیکھیں تھامس ایڈیسن نےکی ایک تلاش  تنت  میں دو ہزار مختلف مواد کی کوشش کی لائٹ بلب کے لئے . جب کسی نے بھی اطمینان بخش کام نہیں کیا تو ، اس کے مدد گار نےشکایت کی ، ہمارے تمام کام بیکار ہیں۔ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ ایڈیسن نے نہایت پُر اعتماد انداز میں جواب دیا ،" اوہ ، ہم بہت آگے آچکے ہیں" اور ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ یہاں دو ہزار عناصر موجود ہیں جن کو ہم اچھے لائٹ بلب بنانے کے لئے استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔

بندر اور ڈولفن (Bandar or Dolphin)

تصویر
  بندر اور ڈولفن ایک دن پہلے ، کچھ ملاح اپنے جہاز میں سمندر کے لئے نکلے تھے۔ ایک طویل سفر کے لئے اپنے پالتو بندر کو ساتھ لے کر آئے  جب وہ سمندر سے باہر تھے تو ایک خوفناک طوفان نے انہیں الٹ ڈالا ہر ایک جہاز سے سمندر میں گر گیا ، اور بندر کو یقین تھا کہ وہ گرے گااچانک ڈولفن نمودار ہوئی اور ا س نے بندر کو اٹھایا۔ وہ جلد ہی جزیرے پر پہنچے اور بندراترا ڈالفن نے بندر سے پوچھا ، "کیا آپ کو یہ جگہ معلوم ہے؟ بندر نے جواب دیا ، ہاں ، میں جانتا ہوں۔ در حقیقت ، جزیرے کا بادشاہ میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں ایک شہزادہ ہوں؟ ”یہ جانتے ہوئے کہ جزیرے پر کوئی نہیں رہتا ہے ، ڈولفن نے کہا ،" ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے! ، سو آپ ایک شہزادہ ہیں! اب آپ بادشاہ بھی بن سکتے ہیں بندر نے پوچھا ، میں بادشاہ کیسے بن سکتا ہوں؟ جب ڈولفن نے تیرنا شروع کیا تو اس نے جواب دیا ، یہ آسان ہے۔ چونکہ اب آپ اس جزیرے پر آپ واحد مخلوق ہیں ، آپ فطری طور پر ایک بادشاہ ہوجائیں گے جھوٹ بولنے اور فخر کرنے والے مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔

ریت اور پتھر(Raet or Phattar)

تصویر
  ریت اور پتھر ایک کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دودوست صحرامیں سے گزر رہے تھے۔ دوران سفر کے کچھ مقام پر بحث ہوئی،اورایک دوست نے دوسرے دوست کوتھپڑ مارا دوسرے چہرہ تھپڑ لگنے سے زخمی ہوا،لیکن اس نے بغیر کچھ بھی کہہ،ریت میں لکھا:"آج میرے بہترین دوست   نے میر ے   چہرے پر تھپڑ مار ا   وہ چلتے رہے یہاں تک کہ انہیں نخلستان نہ ملے  جہاں انہوں نے فیصلہ کیا نہانا. وہ ، جسے تھپڑ مارا گیا تھا،وہ دلدل میں پھنس گیا اور ڈوبنے لگا ، لیکن دوست نے اسے بچایا۔ قریب قریب ڈوبنے سے دوست کے ٹھیک ہونے کے بعد ، اس نے ایک پتھر پر لکھا: "آج ہی میرے بہترین دوست نے میری زندگی کو بچایا۔ " جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور اپنے بہترین دوست کو بچایا تھا اس نے اس سے پوچھا  میں نے تمہیں تکلیف دینے کے بعد ، تم نے ریت میں لکھا اور اب ، تم پتھر پر لکھتے ہو  کیوں؟ دوسرے دوست نے جواب دیا: "جب کوئی ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے تو ہمیں اسے ریت پر لکھنا چاہئے نیچے ریت میں جہاں معافی کی ہوائیں اسے مٹا سکتی ہیں۔ لیکن ، جب کوئی ہمارے لئے کچھ اچھا کرتا ہے ، ہمیں اسے پتھر میں کندہ کرنا ہوگا کوئی ہوا کبھی اسے مٹانہیں سکتی۔  

کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا ( Kam Himmat ka Apny Ilaqey mai Bahadur Ban Jana )

تصویر
  کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا  راحیل میاں سیدھے سادھے تھے اور بڑے ہی بھولے بھالے سے بچے تھے۔ آٹھویں کلاس میں پڑھتے لیکن اپنی معصومانہ باتوں کی وجہ سے یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی چوتھی کلاس ہی میں ہوں ۔ راحیل میاں کے سا دے پن کی وجہ سے بہت سے بچے اس سے شرارت کرتے اور کلاس میں ا اسے تنگ کرتے کئی بار تو اسکول کے میدان میں کھیلتے ہوئے کچھ شرارتی بچے اسے دھکا بھی دے دیتے مگر وہ ان سے کچھ بھی نہیں بول پاتا بلکہ گھر آ کر اپنی امی سے کہتا کہ اسے بچے تنگ کرتے ہیں ان بچوں کی شکایت کرتا ۔ راحیل کے امی ابو کوبھی راحیل کے بھولے پن کا معلوم تھا۔ وہ اسے سمجھادیتے اورراحیل میاں یوں سر ہلاتے جیسے انہیں سب کچھ سمجھ میں آ گیا ہو ۔ راحیل کا کئی بار تو دل چاہتا کہ وہ ان شرارتی بچوں کی خوب ٹھکائی لگائے لیکن وہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ گھر سے اسکول بہت دور ہے اگر یہاں وہ کسی سے لڑ ئی کرے گا تو پھر سارے شرارتی بچے ایک ہو جائیں گے اور الٹا اسے ہی ماریں گے ۔  ایک دن راحیل چھٹی والے دن اپنی گلی میں کھیل رہاتھا کہ اس کی نظر اپنے اسکول کے اس شرارتی لڑکے پر پڑی جو راحیل  کو اسکول میں بہت تنگ کرتاتھا اور ک

قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا(Qareebi Sathi Ka Dushman Banna Ya Bura Chahna)

تصویر
 قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا   بہت دن پہلے کی بات ہے ملک مصر پرایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ بادشاہ اپنے سب ہی وزیر پر یقین کرتا تھا لیکن ان میں ایک وزیر جس کا نام نعمان تھا ا سے بادشاہ بہت پسند کرتا اور حکومتی معاملے میں   نعمان  سے اکثر مشورے لیا کر تا  نعمان  کی نیت کا بادشاہ کو ہرگز کو ئی علم نہیں تھا وہ اس پر بہت بھروسہ کرتا جبکہ  نعمان  کسی نہ کسی طرح بادشاہ کی حکومت کا تختہ گرا کر خود بادشاہ بننا چاہتا تھا۔  دن یوں ہی گزرتے گئے ۔ وزیر  نعمان  نے اپنے ساتھ کچھ اور وزیروں کوبھی ملا لیا اورانہیں ساتھ دینے پر انعام کا لالچ بھی دیا۔ بہت سے وزیر انعام و اکرام کی لالچ میں  نعمان  سے مل گئے اور پھر ایک دن  نعمان  نے بادشاہ ختم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا۔  ہوا یوں کہ جب بادشاہ اپنی رعایا کا حال معلوم کر نے کے لئے اپنے وزیروں کے ساتھ ایک قافلے کی صورت میں باہر نکلا تو وزیر  نعمان  نے بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت تقریب کسی جنگل میں بڑے ہی نایاب تیتر آئے ہوئے ہیں کیوں نہ ان کا شکار کیا جائے ۔  بادشاو تیتروں کا بہت شوقین تھا لہذا اس نے حامی بھرلی اور پھر یہ سب جنگل میں تیتروں کا شکار

ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا (Ek Musibat Ke Bad Dosri Musibat Mai Pasna)

تصویر
  ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا     واجد کو کسی کام کے سلسلے میں کراچی جانا تھا ۔ (  کراچی  کے لئے گاڑی کو ٹھیک آٹھ بجے روانہ ہونا تھا) اور ابھی صرف چھ بجےتھے۔  واجد  ایک بیگ میں اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب سامان پیک ہوگیاتو واجد  نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور اسے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔  ڈنگ.... ڈونگ..." دروازے پر بیل کی آواز سن کر واجد نے دروازہ کھولا تو اکمل  کھڑا تھا۔ " کیا پروگرام ہے جناب  اکمل  نے بولا۔ یار اکمل تمہیں تو معلوم ہے کہ آج میں رات آٹھ بجے والی ٹرین سے کراچی جا رہا ہوں ۔ تم ایسا کرو کہ مجھے اپنی موٹرسائیکل پر اسٹیشن تک چھوڑ دو زرا کمپنی رہے گی ۔ واجد نے بولا  اور پھر ساڑھے چھ بجے کے قریب  واجد ، اکمل  کے ساتھ  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہو گیا۔    موٹر سائیکل  نے تھوڑا فصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک بند ہو گی ۔   اکمل   موٹر سائیکل  کو ایک طرف کھڑی کر کے اسے دیکھنے لگا ۔ ذرا جلد ی کرو ۔  واجد  نے بے قراری سے کہا۔ تقریبا بیس منٹ کے بعد  موٹر سائیکل  پھر دوبارہ اسٹارٹ ہو گئی اور دونوں  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ابھی یہ دونوں صدر کے علاقے تک ہی پہنچے تھ

وقت گزرنے کے بعد پچھتانا (Waqt Guzarne Ke Bad Pachtana)

تصویر
  وقت گزرنے کے بعد پچھتانا   ارمان بیٹا بہت کھیل چکے اب آ کر کچھ پڑھ لو ۔  تمہارے پیپر شروع ہونے والے ہیں- “ارمان کی امی نے اسے آواز دیتے ہوئے کہا۔ ارمان نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ کھیل کا بہت شوقین تھا۔ اس کے والدین اسے سمجھتے بھی کہ ہر وقت کھیل ٹھیک نہیں ا سے پڑھائی بھی کرنی چاہئیے لیکن ارمان ہاں ، ہوں کر کے وقت گزارتا رہا۔   مارچ کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور ساتھ ہی اب ارمان کے پیپر بھی شروع ہو چکے تھے۔ارمان نے چونکہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کیا تھالہذا وہ امتحانات کی صحیح طور پر تیاری نہیں کر پایا۔ جب اس کے امتحان شروع ہوئے تو کوئی بھی پرچہ ارمان اچھی طرح حل نہیں کرسکا بلکہ بہت سے پرچوں میں تو اس نے سوالات کے مکمل جوابات بھی نہیں لکھے۔  جب ارمان امتحان دے کر آیا تو اس کے امی ابو اس سے پوچھتے " بتاؤ ارمان تمہارا آج کا پر چہ کیسا ہوا ؟“  بس ٹھیک ہوا ہے۔" یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا جاتا۔"  لگتا ہےارمان کے پرچہ اچھےنہیں ہورہے ہیں ۔" اس کے ابو نےارمان کی امی سے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا۔  "ہاں میرا بھی یہی خیال ہے“۔ارمان کی ا می نے کہا۔  آج ارمان کا