اشاعتیں

waqia لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دیکھنے میں دل موم ہے مگر سنگ دل ہے (Dekhne Mai Dil Moom Ha Magar Sang Dil Ha)

تصویر
  دیکھنے میں دل موم ہے مگر سنگ دل ہے  کاشان نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی تھی ۔ کمپنی کا مالک دیکھنے میں بڑا نرم دل لگتا تھا مگر تھا بڑا سخت گیر۔ بات بات پر ملازمین کو بری طرح سے ڈانٹتا اور کام میں غلطی ہونے پران کی تنخواہ میں سے پیسے کاٹ لیتا تھا  کمپنی کے ملازم اکثرآپس میں بات کرتے کہ مالک دیکھنے میں کتنا بھولا لگتا ہے مگر حقیقت میں "ظاہرکا نرم باطن کا سخت" ہے۔ ملازمین چونکہ مجبور تھے اس لئے وہ کمپنی میں کام کرتے تھے اور اپنا وقت گزار رہے تھے وگرنہ کمپنی کے مالک کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ سخت گیر اور ہروقت غصے میں رہنے والوں کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں سے سب کی دور جانے کی کوشش کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جن کی کوئی مجبوری ہو۔ میٹھی زبان اور پیار سے جوکام بہتر انداز سے کرائے جاسکتے ہیں وہ غصے اورنفرت سے کبھی نہیں کرائے جاسکتے۔ 

ظاہر بات چپ نہیں سکتی تمام دنیا پر روشن ہو جاتی ہے (Zahir Baat Chup Nhi Sakti Tamam Duniya Per Roshan Hojati Hai)

تصویر
ظاہر بات چپ نہیں سکتی تمام دنیا پر روشن ہو جاتی ہے۔  احسن بہت ذہین لڑکا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے میٹرک کا امتحان دیا تھا اور اب وہ بڑی بے چینی سے رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا۔ مگر اس بار اس نے اتنی زیادہ محنت کی تھی کہ  اسے یقین تھا کہ اس بارسارے شہر میں اس کی کامیابی کے چرچے ہوں گے۔  پھر وہ دن بھی آ ہی گیا جس کا انتظار تھا-احسن نے سارے شہر کے تمام اسکولوں کے طلبا سے میٹرک کے امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ ہر طرف سے اسے مبارکبادیں مل رہی تھیں۔ اخبارات میں بھی احسن کے انٹرویو تصاویر کے ساتھ شائع ہورہے تھے۔ سارے شہرمیں احسن کی زبردست کامیابی کے چرچے تھے۔ سچ ہے ظاہر بات چھپ نہیں سکتی تمام دنیا پر روشن ہو جاتی ہے۔  

بے ہنرلوگوں کے درمیان کم ہنر رکھنے والے کو اہمیت دینا (Be Hunar Logun Ke Darmiyan Kam Hunar Rakhne Wale Ko Ehmiyat Dena)

تصویر
  بے ہنرلوگوں کے درمیان کم ہنر رکھنے والے کو اہمیت دینا  گاؤں" شکار پور" میں کوئی بھی ڈاکٹر نہ تھا۔ لوگ جب بیمار پڑتے تو گاؤں سے اسپتال میں جا کر علاج کراتے۔ ایک دن گاؤں کے لوگوں نے سوچا کہ جس اسپتال میں وہ علاج کراتے ہیں وہاں سے کسی ڈاکڑ کو اپنے گاؤں لانے پر راضی کرتے ہیں ۔ یہ سوچ کر گاؤں کے کچھ لوگوں نے اسپتال میں ایک ڈاکٹر سے درخواست کی کہ وہ ان کے گاؤں میں آجائے تا کہ لوگوں کو وقت پر علاج میسر آجائے لیکن اس ڈاکٹر نے صاف انکار کر دیا۔ اسپتال میں ایک کمپاؤنڈر جو بہت سی چالاک تھا اس نے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ وہ ان کے گاؤں چل کر ایک کلینک کھول سکتا ہے اس طرح گاؤں کے لوگوں کو وقت پرعلاج میسر آجائے گا اور وہ اتنی دور آنے سے بچ جائیں گے ۔ کمپاؤنڈر بہت لالچی تھا اس نے سوچا تھا کہ چونکہ کوئی ڈاکٹر اس گاؤں میں نہیں ہے لہذا وہ خود کلینک کھول کر وہاں بیٹھ جاتا ہے اس طرح اس کا کام خوب چلے گا۔ گاؤں کے لوگوں کو اس صورت حال میں کہ جب کوئی ڈاکٹربھی ان کے گاؤں آنے پر تیار نہیں تھا یہ  کمپاؤنڈر کسی فرشتے سے کم نہیں لگا اس طرح وہ ان کے گاؤں آ گیا اور کلینک کھول کر لوگوں کا علاج کرنا شروع کر

پیاسا کوا (Piyasa Kawwa)

تصویر
 پیاسا کوا ایک دن ، ایک پیاسے کوا نے پانی کی تلاش میں پورے میدان میں اڑان بھری۔ ایک لمبے عرصے تک ، اسے کچھ نہیں مل سکا۔ اسے بہت کمزوری محسوس ہوئی   اچانک ، اس نے اپنے نیچے پانی کا گھڑا دیکھا۔ وہ سیدھے نیچے اُترا -  اس کے اندر پانی تھا کوے نے اپنے سر کوگھڑا میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ افسوس کی بات ہے ، وہ کر نہیں پایا   گھڑا بہت تنگ تھا۔ تب اس نے گھڑاکو نیچے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی پانی باہر بہنےلگا اسے پتہ چلا کہ جگہ بہت زیادہ ہے۔ کوا نے کچھ دیر خوب سوچا۔ پھر اس نے اپنے آس پاس دیکھتے ہوئے ، اسے کچھ کنکر دیکھ کر خیال آیا۔ اس نے کنکراٹھانا شروع کیے ایک ایک کر کے کنکریاں کو ، ایک جگہ کرتی گئی ۔ زیادہ سے زیادہ  کنکروں سے جگہ بھردی ، پانی کی سطح بڑھتی چلی گئی۔ جلد ہی یہ اونچی ہو گئی   اس کی منصوبہ بندی نے کام کیا- کوے نے پا نی پیا  اگر آپ کافی کوشش کرتے ہیں تو ، آپ کو جلد ہی آپ کا صلہ مل سکتا ہے

توبہ(Tuba)

تصویر
 توبہ ایک شخص نے ایک بار ایک متقی مسلمان کو یہ کہتے سنا کہ "آخری تیس برسوں سے  میں گناہ کے لئے توبہ کر رہا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کس طرح معاف کرے گا مجھے اس کے بارے میں بتائیں؟ " سننے والے نے پوچھا: "آپ کا کیا گناہ تھا؟" متقی مسلمان نے کہا: “ میری بازار میں ایک دکان تھی۔ ایک دن میں نے سنا کہ پورا بازار جل رہا ہے تو میں اپنی دکان دیکھنے کے لئے بھاگ گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میری دکان کے علاوه ساری دکانیں زمین پر مسمار ہوگئیں . میں نے کہا "الحمدالله " (تمام تعریف اللہ کی) ہےلیکن فوراً ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ جب میں ہوں تو اپنے آپ کو مسلمان کیسے کہہ سکتا ہوں میرے پڑوسیوں کے نقصان کو محسوس نہیں کر سکتے ہوں؟ اس لیے  میں توبہ کر رہا ہوں یہ پچھلے تیس سالوں سے میری  متوجہ ہے ۔

پرانا قبرستان(Porana Qabrustan)

تصویر
  پرانا قبرستان ایک دن ، اکبر نے اپنے دوستوں سے کہا: "اگر میں مر گیا تو مجھے بوڑھے  قبرستان میں دفن کرنا  "کیوں ، اس کے دوستوں نے پوچھا۔ "کیونکہ" ، اس نے وضاحت کی ، "اگر فرشتے آ ئے ، میں انھیں بتاؤں گا کہ میں سالوں پہلے ہی مر گیا تھا اور میری پہلے سے پوچھ گچھ ہو گئی ہے اور پھر وہ جس طرح آئے تھے واپس چلےجائیں گے۔

غلطیوں سے سیکھیں(Ghaltiyun se Sikhein)

تصویر
 غلطیوں سے سیکھیں تھامس ایڈیسن نےکی ایک تلاش  تنت  میں دو ہزار مختلف مواد کی کوشش کی لائٹ بلب کے لئے . جب کسی نے بھی اطمینان بخش کام نہیں کیا تو ، اس کے مدد گار نےشکایت کی ، ہمارے تمام کام بیکار ہیں۔ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ ایڈیسن نے نہایت پُر اعتماد انداز میں جواب دیا ،" اوہ ، ہم بہت آگے آچکے ہیں" اور ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ یہاں دو ہزار عناصر موجود ہیں جن کو ہم اچھے لائٹ بلب بنانے کے لئے استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔

ریت اور پتھر(Raet or Phattar)

تصویر
  ریت اور پتھر ایک کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دودوست صحرامیں سے گزر رہے تھے۔ دوران سفر کے کچھ مقام پر بحث ہوئی،اورایک دوست نے دوسرے دوست کوتھپڑ مارا دوسرے چہرہ تھپڑ لگنے سے زخمی ہوا،لیکن اس نے بغیر کچھ بھی کہہ،ریت میں لکھا:"آج میرے بہترین دوست   نے میر ے   چہرے پر تھپڑ مار ا   وہ چلتے رہے یہاں تک کہ انہیں نخلستان نہ ملے  جہاں انہوں نے فیصلہ کیا نہانا. وہ ، جسے تھپڑ مارا گیا تھا،وہ دلدل میں پھنس گیا اور ڈوبنے لگا ، لیکن دوست نے اسے بچایا۔ قریب قریب ڈوبنے سے دوست کے ٹھیک ہونے کے بعد ، اس نے ایک پتھر پر لکھا: "آج ہی میرے بہترین دوست نے میری زندگی کو بچایا۔ " جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور اپنے بہترین دوست کو بچایا تھا اس نے اس سے پوچھا  میں نے تمہیں تکلیف دینے کے بعد ، تم نے ریت میں لکھا اور اب ، تم پتھر پر لکھتے ہو  کیوں؟ دوسرے دوست نے جواب دیا: "جب کوئی ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے تو ہمیں اسے ریت پر لکھنا چاہئے نیچے ریت میں جہاں معافی کی ہوائیں اسے مٹا سکتی ہیں۔ لیکن ، جب کوئی ہمارے لئے کچھ اچھا کرتا ہے ، ہمیں اسے پتھر میں کندہ کرنا ہوگا کوئی ہوا کبھی اسے مٹانہیں سکتی۔  

کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا ( Kam Himmat ka Apny Ilaqey mai Bahadur Ban Jana )

تصویر
  کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا  راحیل میاں سیدھے سادھے تھے اور بڑے ہی بھولے بھالے سے بچے تھے۔ آٹھویں کلاس میں پڑھتے لیکن اپنی معصومانہ باتوں کی وجہ سے یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی چوتھی کلاس ہی میں ہوں ۔ راحیل میاں کے سا دے پن کی وجہ سے بہت سے بچے اس سے شرارت کرتے اور کلاس میں ا اسے تنگ کرتے کئی بار تو اسکول کے میدان میں کھیلتے ہوئے کچھ شرارتی بچے اسے دھکا بھی دے دیتے مگر وہ ان سے کچھ بھی نہیں بول پاتا بلکہ گھر آ کر اپنی امی سے کہتا کہ اسے بچے تنگ کرتے ہیں ان بچوں کی شکایت کرتا ۔ راحیل کے امی ابو کوبھی راحیل کے بھولے پن کا معلوم تھا۔ وہ اسے سمجھادیتے اورراحیل میاں یوں سر ہلاتے جیسے انہیں سب کچھ سمجھ میں آ گیا ہو ۔ راحیل کا کئی بار تو دل چاہتا کہ وہ ان شرارتی بچوں کی خوب ٹھکائی لگائے لیکن وہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ گھر سے اسکول بہت دور ہے اگر یہاں وہ کسی سے لڑ ئی کرے گا تو پھر سارے شرارتی بچے ایک ہو جائیں گے اور الٹا اسے ہی ماریں گے ۔  ایک دن راحیل چھٹی والے دن اپنی گلی میں کھیل رہاتھا کہ اس کی نظر اپنے اسکول کے اس شرارتی لڑکے پر پڑی جو راحیل  کو اسکول میں بہت تنگ کرتاتھا اور ک

ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا (Ek Musibat Ke Bad Dosri Musibat Mai Pasna)

تصویر
  ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا     واجد کو کسی کام کے سلسلے میں کراچی جانا تھا ۔ (  کراچی  کے لئے گاڑی کو ٹھیک آٹھ بجے روانہ ہونا تھا) اور ابھی صرف چھ بجےتھے۔  واجد  ایک بیگ میں اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب سامان پیک ہوگیاتو واجد  نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور اسے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔  ڈنگ.... ڈونگ..." دروازے پر بیل کی آواز سن کر واجد نے دروازہ کھولا تو اکمل  کھڑا تھا۔ " کیا پروگرام ہے جناب  اکمل  نے بولا۔ یار اکمل تمہیں تو معلوم ہے کہ آج میں رات آٹھ بجے والی ٹرین سے کراچی جا رہا ہوں ۔ تم ایسا کرو کہ مجھے اپنی موٹرسائیکل پر اسٹیشن تک چھوڑ دو زرا کمپنی رہے گی ۔ واجد نے بولا  اور پھر ساڑھے چھ بجے کے قریب  واجد ، اکمل  کے ساتھ  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہو گیا۔    موٹر سائیکل  نے تھوڑا فصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک بند ہو گی ۔   اکمل   موٹر سائیکل  کو ایک طرف کھڑی کر کے اسے دیکھنے لگا ۔ ذرا جلد ی کرو ۔  واجد  نے بے قراری سے کہا۔ تقریبا بیس منٹ کے بعد  موٹر سائیکل  پھر دوبارہ اسٹارٹ ہو گئی اور دونوں  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ابھی یہ دونوں صدر کے علاقے تک ہی پہنچے تھ

وقت گزرنے کے بعد پچھتانا (Waqt Guzarne Ke Bad Pachtana)

تصویر
  وقت گزرنے کے بعد پچھتانا   ارمان بیٹا بہت کھیل چکے اب آ کر کچھ پڑھ لو ۔  تمہارے پیپر شروع ہونے والے ہیں- “ارمان کی امی نے اسے آواز دیتے ہوئے کہا۔ ارمان نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ کھیل کا بہت شوقین تھا۔ اس کے والدین اسے سمجھتے بھی کہ ہر وقت کھیل ٹھیک نہیں ا سے پڑھائی بھی کرنی چاہئیے لیکن ارمان ہاں ، ہوں کر کے وقت گزارتا رہا۔   مارچ کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور ساتھ ہی اب ارمان کے پیپر بھی شروع ہو چکے تھے۔ارمان نے چونکہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کیا تھالہذا وہ امتحانات کی صحیح طور پر تیاری نہیں کر پایا۔ جب اس کے امتحان شروع ہوئے تو کوئی بھی پرچہ ارمان اچھی طرح حل نہیں کرسکا بلکہ بہت سے پرچوں میں تو اس نے سوالات کے مکمل جوابات بھی نہیں لکھے۔  جب ارمان امتحان دے کر آیا تو اس کے امی ابو اس سے پوچھتے " بتاؤ ارمان تمہارا آج کا پر چہ کیسا ہوا ؟“  بس ٹھیک ہوا ہے۔" یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا جاتا۔"  لگتا ہےارمان کے پرچہ اچھےنہیں ہورہے ہیں ۔" اس کے ابو نےارمان کی امی سے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا۔  "ہاں میرا بھی یہی خیال ہے“۔ارمان کی ا می نے کہا۔  آج ارمان کا

کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا(Kisi Cheez ka Miqdar Mai Bohat Kam Milna)

تصویر
  کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا  کمال بڑی محنت سے لیڈ یز جوتے بناتا اور پھرتیار کئے ہوئے جوتے  دکانداروں کو دیتا۔  کمال  نے   جوتے  بنانے کے لئے اپنے پاس کچھ کاریگر بھی رکھے ہوئے تھے جو اس کے ساتھ مل کر یہ  جوتے تیار کرتےاور ہر ہفتے یہ لیڈیز   جوتے  دکانوں پر لے جا تا۔ کوئی بھی دکاندار  کمال  کو سارے   جوتے  کی قیمت ایک ساتھ نہیں دیتا تھا بلکہ طریقہ کار یہ تھا کہ  کمال  ہر ہفتہ آٹھ سے دس ہزار روپے مالیت تک کے کئی  لیڈ یز جوتے  تیار کر کے  دوکانوں پر دیتا اور دکاندار ہر ہفتہ اسے صرف ہزار روپے دیتے ۔ یہ ایک ہزار روپے تو کاریگروں کو دینے میں بھی کم پڑتے-  کمال  مزید رقم بینک سے نکلواتااوریوں کاریگروں کی اجرت کے پیسے پورے کرتا۔  کمال  صرف یہی سوچتا کہ "میرے پیسے دکانداروں پرچڑھ ہی رہے ہیں, سال میں ایک بارعید کے موقع پرتو دوکاندار حساب پورا کر ہی دیتے ہیں کم از کم اس طرح میرا کا رو با ر تو چل رہا ہے"۔ کمال  کا کام اسی طرح چلتا رہا اور اب تو دکانداروں پرکئی ہزار روپے ہو گئے تھے اور کمال  کو صرف ایک ہزار روپے ہی ملتا رہا۔ ایک دن  کمال  نے اپنے دوست سے  تذ کرہ کرتے ہوئے کہا "

ایک چیز کے کئی طلب گار(Ek Cheez ke Kai Talabgar)

تصویر
 ایک چیز کے کئی طلب گار     آج علی بہت خوش تھا۔ اس کے ابو رنگین ٹی وی جولا رہے تھے۔ پوری گلی میں اس وقت رنگین ٹی وی کسی کے گھر بھی نہیں تھا- علی اپنے سب دوستوں کورنگین ٹی وی کے بارے میں بتارہا تھا"یار علی رنگین ٹی وی میں تصویر تو بڑی خوبصورت لگتی ہوگی؟" علی کے ایک دوست نے پوچھا-اور کیا.... بہت خوبصورت تصویر لگتی ہے۔ ابو کہ رہے تھے کہ ٹی وی مہنگا بھی بہت ہے۔ ابھی علی اپنے دوستوں کو بتاہی رہا تھا کہ اس کے ابوایک ٹیکسی میں رنگین ٹی وی رکھ کر لے آئے ۔ محلے میں خوب شور مچ گیا۔ سب ایک دوسرے کو علی کے گھر رنگین ٹی وی آنے کی اطلاع دے رہے تھے۔ علی کے گھر رنگین ٹی وی کیا گیا کہ محلے کے سب ہی چھوٹے بڑے اس کے گھر کسی نہ کسی بہانے سے آنے لگے ۔ علی کے دوست تو ہر وقت اس کے گھر ہی میں رہتے اور خوب مزے سے پاؤں پھیلا کر رنگین ٹی وی دیکھتے اور بہت خوش ہوتے - علی کے ابو نے جب اپنے گھر میں اتنارش دیکھاتو وہ ا پنی بیگم سے کہنے لگے "لو بھئی گھر میں رنگین ٹی وی کیا آگیا ساتھ میں محلے والے بھی لے آ یا وه بھی اتنے سارے "!!۔ پورے محلے میں صرف ہمارے گھر ہی تو رنگین ٹی وی آیا "ہے۔ علی کی ا

اپنی تعریف خو د کرنا(Apni Tareef Khud Karna)

تصویر
   اپنی تعریف خو د کرنا سنو دوستو ! میں تم سب سے اچھی کرکٹ  کھلتا   ہوں لہذا ٹیم کا کپتان بھی مجھے ہی بنایا جائے۔عابد اپنےدوستوں کو مستقل اس بات کےلیے قائل کر رہا تھا کہ وہ سب سے اچھی کرکٹ کِھلتا   ہے  لہذا کپتان بھی اسے ہی بنایا جائے لیکن اس کے دوست عابد کی بات ماننے پر تیار نہیں تھے مگرعابد ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا کہ میں اچھی کرکٹ کِھلتا ہوں - بھئی جب عابداتنی ضد کر رہا ہے اور باربار بول رہا تو اسے کپتان بن کر دیکھ لیتے ہیں ۔ عابد کے ایک دوست نے بقیہ دوستوں کوراۓ دیتے ہوئے کہا۔ "ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے عابد کو کپتان بنا دیتے ہیں "۔ سب دوستوں نے ایک ساتھ شور کرتے ہوئے کہا اور چلے گیا۔ اگلے دن ہی دوسرے گلی کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ عابد کی ٹیم کا میچ طے ہو گیا۔ عابد ٹاس کرنے گیا تو وہ ہار گیا لہذا دوسری ٹیم نے پہلے بیٹینگ کی ۔ عابد کے سوا اس کے تمام دوستوں نے اچھی بالنگ کی جبکہ عابد نے چھ اورز میں باون رنزدے اور وکٹ بھی کوئی نہیں لے سکا۔ عابد کی ٹیم جب بیٹینگ کرنے آئ تو عابد نےاوپنرکےطورپر کھلتے ہوئے صرف دو رنز بنائے اوربولڈ ہوگیا۔ اس طرح عابد کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹیم کو شکست کا سا