اشاعتیں

qissa لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مسافراور چنار کا درخت (Musafir Or Chinaar Ka Darakht)

تصویر
مسافراور چنار کا درخت ایک دن موسم گرما میں  دو آدمی ساتھ چل رہے تھے۔ جلد ہی گرمی بہت بڑھ گئی قریب ہی چنار کا ایک درخت دیکھ کر ، اس کے سائے میں آرام کرنے کے لئے دونوں درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ شاخوں کی طرف نگاہ ڈال کر ایک شخص نے دوسرے  شخص سے کہا: کیا بیکار درخت ہے یہ ؟   اس میں پھل یا میوےکچھ  بھی نہیں ہیں جسے ہم کھا سکیں یہاں تک کہ اس کی لکڑی کو کسی بھی چیز کے استعمال میں نہیں لے سکتے       "!درخت نے جواب میں کہا " اتنےناشکرے مت بنو  !میں آپ کیلئے اس وقت بے حد مفید  ہوں ، آپ کوسورج کی گرمی سے بچا رہا ہوں " اور آپ مجھے فضول درخت کہتے ہیں اللہ کی تمام تخلیقات کا کچھ مقصد ہے۔  :اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہےکہ ہمیں ہمیشہ اللہ کی نعمتوں کا شکرا ادا کرنا چاہئے

پرانا قبرستان(Porana Qabrustan)

تصویر
  پرانا قبرستان ایک دن ، اکبر نے اپنے دوستوں سے کہا: "اگر میں مر گیا تو مجھے بوڑھے  قبرستان میں دفن کرنا  "کیوں ، اس کے دوستوں نے پوچھا۔ "کیونکہ" ، اس نے وضاحت کی ، "اگر فرشتے آ ئے ، میں انھیں بتاؤں گا کہ میں سالوں پہلے ہی مر گیا تھا اور میری پہلے سے پوچھ گچھ ہو گئی ہے اور پھر وہ جس طرح آئے تھے واپس چلےجائیں گے۔

بندر اور ڈولفن (Bandar or Dolphin)

تصویر
  بندر اور ڈولفن ایک دن پہلے ، کچھ ملاح اپنے جہاز میں سمندر کے لئے نکلے تھے۔ ایک طویل سفر کے لئے اپنے پالتو بندر کو ساتھ لے کر آئے  جب وہ سمندر سے باہر تھے تو ایک خوفناک طوفان نے انہیں الٹ ڈالا ہر ایک جہاز سے سمندر میں گر گیا ، اور بندر کو یقین تھا کہ وہ گرے گااچانک ڈولفن نمودار ہوئی اور ا س نے بندر کو اٹھایا۔ وہ جلد ہی جزیرے پر پہنچے اور بندراترا ڈالفن نے بندر سے پوچھا ، "کیا آپ کو یہ جگہ معلوم ہے؟ بندر نے جواب دیا ، ہاں ، میں جانتا ہوں۔ در حقیقت ، جزیرے کا بادشاہ میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں ایک شہزادہ ہوں؟ ”یہ جانتے ہوئے کہ جزیرے پر کوئی نہیں رہتا ہے ، ڈولفن نے کہا ،" ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے! ، سو آپ ایک شہزادہ ہیں! اب آپ بادشاہ بھی بن سکتے ہیں بندر نے پوچھا ، میں بادشاہ کیسے بن سکتا ہوں؟ جب ڈولفن نے تیرنا شروع کیا تو اس نے جواب دیا ، یہ آسان ہے۔ چونکہ اب آپ اس جزیرے پر آپ واحد مخلوق ہیں ، آپ فطری طور پر ایک بادشاہ ہوجائیں گے جھوٹ بولنے اور فخر کرنے والے مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔

ریت اور پتھر(Raet or Phattar)

تصویر
  ریت اور پتھر ایک کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دودوست صحرامیں سے گزر رہے تھے۔ دوران سفر کے کچھ مقام پر بحث ہوئی،اورایک دوست نے دوسرے دوست کوتھپڑ مارا دوسرے چہرہ تھپڑ لگنے سے زخمی ہوا،لیکن اس نے بغیر کچھ بھی کہہ،ریت میں لکھا:"آج میرے بہترین دوست   نے میر ے   چہرے پر تھپڑ مار ا   وہ چلتے رہے یہاں تک کہ انہیں نخلستان نہ ملے  جہاں انہوں نے فیصلہ کیا نہانا. وہ ، جسے تھپڑ مارا گیا تھا،وہ دلدل میں پھنس گیا اور ڈوبنے لگا ، لیکن دوست نے اسے بچایا۔ قریب قریب ڈوبنے سے دوست کے ٹھیک ہونے کے بعد ، اس نے ایک پتھر پر لکھا: "آج ہی میرے بہترین دوست نے میری زندگی کو بچایا۔ " جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور اپنے بہترین دوست کو بچایا تھا اس نے اس سے پوچھا  میں نے تمہیں تکلیف دینے کے بعد ، تم نے ریت میں لکھا اور اب ، تم پتھر پر لکھتے ہو  کیوں؟ دوسرے دوست نے جواب دیا: "جب کوئی ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے تو ہمیں اسے ریت پر لکھنا چاہئے نیچے ریت میں جہاں معافی کی ہوائیں اسے مٹا سکتی ہیں۔ لیکن ، جب کوئی ہمارے لئے کچھ اچھا کرتا ہے ، ہمیں اسے پتھر میں کندہ کرنا ہوگا کوئی ہوا کبھی اسے مٹانہیں سکتی۔  

کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا ( Kam Himmat ka Apny Ilaqey mai Bahadur Ban Jana )

تصویر
  کم ہمت کا اپنےعلاقے میں بہادر بن جانا  راحیل میاں سیدھے سادھے تھے اور بڑے ہی بھولے بھالے سے بچے تھے۔ آٹھویں کلاس میں پڑھتے لیکن اپنی معصومانہ باتوں کی وجہ سے یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی چوتھی کلاس ہی میں ہوں ۔ راحیل میاں کے سا دے پن کی وجہ سے بہت سے بچے اس سے شرارت کرتے اور کلاس میں ا اسے تنگ کرتے کئی بار تو اسکول کے میدان میں کھیلتے ہوئے کچھ شرارتی بچے اسے دھکا بھی دے دیتے مگر وہ ان سے کچھ بھی نہیں بول پاتا بلکہ گھر آ کر اپنی امی سے کہتا کہ اسے بچے تنگ کرتے ہیں ان بچوں کی شکایت کرتا ۔ راحیل کے امی ابو کوبھی راحیل کے بھولے پن کا معلوم تھا۔ وہ اسے سمجھادیتے اورراحیل میاں یوں سر ہلاتے جیسے انہیں سب کچھ سمجھ میں آ گیا ہو ۔ راحیل کا کئی بار تو دل چاہتا کہ وہ ان شرارتی بچوں کی خوب ٹھکائی لگائے لیکن وہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ گھر سے اسکول بہت دور ہے اگر یہاں وہ کسی سے لڑ ئی کرے گا تو پھر سارے شرارتی بچے ایک ہو جائیں گے اور الٹا اسے ہی ماریں گے ۔  ایک دن راحیل چھٹی والے دن اپنی گلی میں کھیل رہاتھا کہ اس کی نظر اپنے اسکول کے اس شرارتی لڑکے پر پڑی جو راحیل  کو اسکول میں بہت تنگ کرتاتھا اور ک

بہت زیادہ غصہ کرنا (Buhat Ziada Gusa Karna)

تصویر
  بہت زیادہ غصہ کرنا  آدمی کے پاس اگر اپنی ذاتی سواری نہ ہو تو وہ بے چارہ بس  اور رکشے کےچکرمیں پریشان  ہوتا رہتا ہے۔ وہاب صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ تھا۔ ان کے پاس ایک بہت پرانی سی گاڑی تو تھی مگر اب کئی دنوں سے وہ خراب پڑی تھی اس میں چونکہ کام بھی بہت تھا  لہذاوہاب صاحب نے گاڑی ایسے ہی رہنے دی ۔ وہ روز بس کے ذریعے آفس پہنچتے کبھی تو وقت پر پہنچ جاتے اور بھی دیر سے۔  ایک دن  وہاب  صاحب کے افسر نے کسی دوسری کمپنی کے افسران کو اپنے آفس میں ایک انتہائی اہم مسئلہ پر گفتگو کرنے کے لئے بلایا اور وہاب  صاحب کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ شہر کے باہر سے آنے والے افسران کو اپنی کمپنی کے کام کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کریں گےاور وقت سے پہلے پہنچ کر آفس میں چائے وغیرہ کا بھی انتظام کریں گے۔   وہاب  صاحب آفس جلدی پہنچنے کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے کپڑے استری کے لئے نکالے تو اچانک لائٹ ہی چلی گئی اب تو وہ گھبرائے کہ پتہ نہیں لائٹ کب آئے گی اور انہیں آفس پہنچنے میں دیر ہو جائے ، خداخدا کر کے لائٹ آئی تو انہوں نے جلدی جلدی کپڑے استری کیے اور آفس جانے کے لئے روانہ ہو گئے۔  وہ بہت دیر

قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا(Qareebi Sathi Ka Dushman Banna Ya Bura Chahna)

تصویر
 قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا   بہت دن پہلے کی بات ہے ملک مصر پرایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ بادشاہ اپنے سب ہی وزیر پر یقین کرتا تھا لیکن ان میں ایک وزیر جس کا نام نعمان تھا ا سے بادشاہ بہت پسند کرتا اور حکومتی معاملے میں   نعمان  سے اکثر مشورے لیا کر تا  نعمان  کی نیت کا بادشاہ کو ہرگز کو ئی علم نہیں تھا وہ اس پر بہت بھروسہ کرتا جبکہ  نعمان  کسی نہ کسی طرح بادشاہ کی حکومت کا تختہ گرا کر خود بادشاہ بننا چاہتا تھا۔  دن یوں ہی گزرتے گئے ۔ وزیر  نعمان  نے اپنے ساتھ کچھ اور وزیروں کوبھی ملا لیا اورانہیں ساتھ دینے پر انعام کا لالچ بھی دیا۔ بہت سے وزیر انعام و اکرام کی لالچ میں  نعمان  سے مل گئے اور پھر ایک دن  نعمان  نے بادشاہ ختم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا۔  ہوا یوں کہ جب بادشاہ اپنی رعایا کا حال معلوم کر نے کے لئے اپنے وزیروں کے ساتھ ایک قافلے کی صورت میں باہر نکلا تو وزیر  نعمان  نے بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت تقریب کسی جنگل میں بڑے ہی نایاب تیتر آئے ہوئے ہیں کیوں نہ ان کا شکار کیا جائے ۔  بادشاو تیتروں کا بہت شوقین تھا لہذا اس نے حامی بھرلی اور پھر یہ سب جنگل میں تیتروں کا شکار

ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا (Ek Musibat Ke Bad Dosri Musibat Mai Pasna)

تصویر
  ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا     واجد کو کسی کام کے سلسلے میں کراچی جانا تھا ۔ (  کراچی  کے لئے گاڑی کو ٹھیک آٹھ بجے روانہ ہونا تھا) اور ابھی صرف چھ بجےتھے۔  واجد  ایک بیگ میں اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب سامان پیک ہوگیاتو واجد  نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور اسے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔  ڈنگ.... ڈونگ..." دروازے پر بیل کی آواز سن کر واجد نے دروازہ کھولا تو اکمل  کھڑا تھا۔ " کیا پروگرام ہے جناب  اکمل  نے بولا۔ یار اکمل تمہیں تو معلوم ہے کہ آج میں رات آٹھ بجے والی ٹرین سے کراچی جا رہا ہوں ۔ تم ایسا کرو کہ مجھے اپنی موٹرسائیکل پر اسٹیشن تک چھوڑ دو زرا کمپنی رہے گی ۔ واجد نے بولا  اور پھر ساڑھے چھ بجے کے قریب  واجد ، اکمل  کے ساتھ  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہو گیا۔    موٹر سائیکل  نے تھوڑا فصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک بند ہو گی ۔   اکمل   موٹر سائیکل  کو ایک طرف کھڑی کر کے اسے دیکھنے لگا ۔ ذرا جلد ی کرو ۔  واجد  نے بے قراری سے کہا۔ تقریبا بیس منٹ کے بعد  موٹر سائیکل  پھر دوبارہ اسٹارٹ ہو گئی اور دونوں  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ابھی یہ دونوں صدر کے علاقے تک ہی پہنچے تھ

کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا(Kisi Cheez ka Miqdar Mai Bohat Kam Milna)

تصویر
  کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا  کمال بڑی محنت سے لیڈ یز جوتے بناتا اور پھرتیار کئے ہوئے جوتے  دکانداروں کو دیتا۔  کمال  نے   جوتے  بنانے کے لئے اپنے پاس کچھ کاریگر بھی رکھے ہوئے تھے جو اس کے ساتھ مل کر یہ  جوتے تیار کرتےاور ہر ہفتے یہ لیڈیز   جوتے  دکانوں پر لے جا تا۔ کوئی بھی دکاندار  کمال  کو سارے   جوتے  کی قیمت ایک ساتھ نہیں دیتا تھا بلکہ طریقہ کار یہ تھا کہ  کمال  ہر ہفتہ آٹھ سے دس ہزار روپے مالیت تک کے کئی  لیڈ یز جوتے  تیار کر کے  دوکانوں پر دیتا اور دکاندار ہر ہفتہ اسے صرف ہزار روپے دیتے ۔ یہ ایک ہزار روپے تو کاریگروں کو دینے میں بھی کم پڑتے-  کمال  مزید رقم بینک سے نکلواتااوریوں کاریگروں کی اجرت کے پیسے پورے کرتا۔  کمال  صرف یہی سوچتا کہ "میرے پیسے دکانداروں پرچڑھ ہی رہے ہیں, سال میں ایک بارعید کے موقع پرتو دوکاندار حساب پورا کر ہی دیتے ہیں کم از کم اس طرح میرا کا رو با ر تو چل رہا ہے"۔ کمال  کا کام اسی طرح چلتا رہا اور اب تو دکانداروں پرکئی ہزار روپے ہو گئے تھے اور کمال  کو صرف ایک ہزار روپے ہی ملتا رہا۔ ایک دن  کمال  نے اپنے دوست سے  تذ کرہ کرتے ہوئے کہا "

ایک چیز کے کئی طلب گار(Ek Cheez ke Kai Talabgar)

تصویر
 ایک چیز کے کئی طلب گار     آج علی بہت خوش تھا۔ اس کے ابو رنگین ٹی وی جولا رہے تھے۔ پوری گلی میں اس وقت رنگین ٹی وی کسی کے گھر بھی نہیں تھا- علی اپنے سب دوستوں کورنگین ٹی وی کے بارے میں بتارہا تھا"یار علی رنگین ٹی وی میں تصویر تو بڑی خوبصورت لگتی ہوگی؟" علی کے ایک دوست نے پوچھا-اور کیا.... بہت خوبصورت تصویر لگتی ہے۔ ابو کہ رہے تھے کہ ٹی وی مہنگا بھی بہت ہے۔ ابھی علی اپنے دوستوں کو بتاہی رہا تھا کہ اس کے ابوایک ٹیکسی میں رنگین ٹی وی رکھ کر لے آئے ۔ محلے میں خوب شور مچ گیا۔ سب ایک دوسرے کو علی کے گھر رنگین ٹی وی آنے کی اطلاع دے رہے تھے۔ علی کے گھر رنگین ٹی وی کیا گیا کہ محلے کے سب ہی چھوٹے بڑے اس کے گھر کسی نہ کسی بہانے سے آنے لگے ۔ علی کے دوست تو ہر وقت اس کے گھر ہی میں رہتے اور خوب مزے سے پاؤں پھیلا کر رنگین ٹی وی دیکھتے اور بہت خوش ہوتے - علی کے ابو نے جب اپنے گھر میں اتنارش دیکھاتو وہ ا پنی بیگم سے کہنے لگے "لو بھئی گھر میں رنگین ٹی وی کیا آگیا ساتھ میں محلے والے بھی لے آ یا وه بھی اتنے سارے "!!۔ پورے محلے میں صرف ہمارے گھر ہی تو رنگین ٹی وی آیا "ہے۔ علی کی ا

اپنی تعریف خو د کرنا(Apni Tareef Khud Karna)

تصویر
   اپنی تعریف خو د کرنا سنو دوستو ! میں تم سب سے اچھی کرکٹ  کھلتا   ہوں لہذا ٹیم کا کپتان بھی مجھے ہی بنایا جائے۔عابد اپنےدوستوں کو مستقل اس بات کےلیے قائل کر رہا تھا کہ وہ سب سے اچھی کرکٹ کِھلتا   ہے  لہذا کپتان بھی اسے ہی بنایا جائے لیکن اس کے دوست عابد کی بات ماننے پر تیار نہیں تھے مگرعابد ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا کہ میں اچھی کرکٹ کِھلتا ہوں - بھئی جب عابداتنی ضد کر رہا ہے اور باربار بول رہا تو اسے کپتان بن کر دیکھ لیتے ہیں ۔ عابد کے ایک دوست نے بقیہ دوستوں کوراۓ دیتے ہوئے کہا۔ "ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے عابد کو کپتان بنا دیتے ہیں "۔ سب دوستوں نے ایک ساتھ شور کرتے ہوئے کہا اور چلے گیا۔ اگلے دن ہی دوسرے گلی کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ عابد کی ٹیم کا میچ طے ہو گیا۔ عابد ٹاس کرنے گیا تو وہ ہار گیا لہذا دوسری ٹیم نے پہلے بیٹینگ کی ۔ عابد کے سوا اس کے تمام دوستوں نے اچھی بالنگ کی جبکہ عابد نے چھ اورز میں باون رنزدے اور وکٹ بھی کوئی نہیں لے سکا۔ عابد کی ٹیم جب بیٹینگ کرنے آئ تو عابد نےاوپنرکےطورپر کھلتے ہوئے صرف دو رنز بنائے اوربولڈ ہوگیا۔ اس طرح عابد کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹیم کو شکست کا سا