اشاعتیں

urdu idioms لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے Jisse ALLAH Rakhe Usse Kon Chakhe

تصویر
 جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے  بس میں بھیٹر اس قدر تھی کہ زیان باوجود کوشش کے بس میں نہیں بیٹھ سکا۔ اسے اسکول جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی بس میں وہ بیٹھ نہیں سکا جس کا اسے بڑادکھ تھا۔ وہ پیدل ہی اسکول کی جانب روانہ ہو گیا تا کہ جتنا فاصلہ ہوسکے وہ طے کر لے اس طرح کچھ وقت بچے گا۔ ابھی  زیان تھوڑا ہی دور گیا ہوگا کہ اس نے دیکھا کہ جس بس میں وہ بیٹھ نہیں سکا تھا وہ بس ایک گہرے کھڈ میں گری ہوئی ہے اورزخمی لوگ مدد کے لیے چلا رہے ہیں ۔  زیان بھی بھاگم بھاگ دیگر لوگوں کے ہمراہ زخمیوں کو بس سے باہر نکالنے میں مدد کرنے لگا۔  زیان کو بار بار اس بات کا خیال آ رہا تھا کہ اللہ جوکر تا ہے بہتر کرتا ہے اگر وہ اس بس میں بیٹھ جاتا تو وہ خود بھی  زخمی ہوتا مگر’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔  زیان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مصروف ہو گیا۔ 

سُست انسان Soost Insan

تصویر
سُست انسان  ارے! اکرم صاحب اپنے ٹوٹے ہوۓ صحن کا فرش تو بنوالو ۔ شکیل صاحب نے اکرم صاحب کے گھر بیٹھے ہوۓ ان کے صحن کے ٹوٹے فرش کو دیکھ کر کہا۔ اکرم صاحب ذرا سُست طبیعت کے انسان تھے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ۔ یہی وجہ تھی کہ کئی دن گزرنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے گھر کے صحن کا فرش جو جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا تھانہیں بنوایا تھا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب پورا گھر بنواؤں گا تو فرش بنوالوں گا۔ اکرم صاحب نے کہا۔ یہ کیا بات ہوئی ، پورا گھر بنوانے کے لیے تو بڑی رقم کی ضرورت ہے اور تمہارے پاس اتنی رقم ہے نہیں ،اب اتنے سے کام کوکروانے کے لیے تم بڑے کام کے انتظار میں ہو جس کا دور دور تک امکان بھی نہیں ۔ شکیل صاحب یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور اکرم صاحب انہیں یوں جاتا د کھتے رہے جیسے ان پر کوئی اثر ہی نہ ہوا ہو۔

آفت کے آثار پہلے سے نظر آ نا Aafat Ke Asaar Pehle Se Nazar Ana

تصویر
  آفت کے آثار پہلے سے نظر آ نا  بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کسان پہلے ہی پریشان تھے - اب کچھ دنوں سے جو فصل تیارتھی اس پر ٹڈیوں نے آ نا شروع کر دیا تھا۔  بھائی دعا کرو جلد بارش ہو جاۓ ، اب تو ٹڈیاں بھی آنے لگی ہیں ۔ سمجھ لو کہ آنے والی آفت کے آثار نظر آرہے ہیں ’’ ٹڈی کا آ نا کال کی نشانی ‘‘ ہے۔ گاؤں کے ایک کسان نے فکر مند ہوتے ہوۓ دوسرے کسانوں سے کہا اور پھرسب ہی کسان رات بھراللہ تعالی سے بارش ہونے کی دعا کرتے رہے۔ دوسرے دن صبح ہی سے گاؤں پر بادل منڈلا رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے زورداربارش بھی ہوگئی ۔ بارش ہوتے ہی تمام کسانوں کے چہرے خوشی سے جھوم اٹھے ہرکوئی بارش ہونے پر خوشی سے ناچ رہا تھا ۔ تمام کسانوں نے بارش ہو نے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کیوں کہ اللہ کی رحمت سے اب گا ؤں والوں کو امید تھی کہ ان کی فصل بہت اچھی ہوگی اور ٹڈیوں کے کھیتوں سے واپس چلے جانے کے بعد ان کے کھیتوں کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

چور کے پیر کہاں Chor Ke Peaar Kahan

تصویر
 چور کے پیر کہاں   فیض بابا کے گھر گاؤں کے تقریباً سب ہی لوگ جمع تھے ۔ اور اپنے افسوس کا اظہار  کر رہے تھے ۔ ہوا یوں کہ فیض بابا کے گھر کل رات چوری ہوگئی تھی ۔ چوران کے گھر سے سارا سامان لے کر چلے گئے تھے- یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے لوگ فیض بابا سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کر رہے تھے ۔ فیض با با تم نے چورکود یکھا تھا ؟ ایک نے کہا۔ "نہیں " فیض بابا نے مختصر جواب دیا۔ ارے بھئی دیکھتے بھی کیسے"چور کے پیر کہاں" ۔ چورتو ذرا سا کھٹکا سن کرہی بھا گ جاتا ہے گاؤں کے ایک شخص نے اپنی رائے دیتے ہوۓ کہا۔    اور پھر کچھ دیر بعد سب ہی اپنے اپنے افسوس کا اظہا راور ہمدردی کر نے کے بعد ایک ایک کرکے واپس اپنے گھروں کو چلے گئے اور بے چارہ فیض بابا ایک بار پھر اپنے گھر میں تنہا بھیٹے چور کے متعلق سوچنے لگے ۔

غصہ والا لڑکا Guse Wala Larka

تصویر
غصہ والا لڑکا  بڑے بوڑھوں سے ہمیشہ ہی سنتے آۓ ہیں کہ غصہ حرام ہے مگر شاید رحیم نے یہ نہیں سن رکھا تھا اور اگرسن بھی رکھا تھا تو وہ اس پرعمل نہیں کرتا تھا ۔  ہر ایک سے غصہ میں بات کرنا اور بات بات پر ناراضگی کا اظہار کرنا اس کی تو جیسے عادت تھی ۔ ایک دن اس کے دوست نے رحیم سے کہا ــ "یا ر! رحیم آج تو کہیں پکنک منانے چلتے ہیں تم بتاؤ کدھر چلیں؟" میری بلا سے "جہاں سینگ سمائے چلے جاؤ"میں تو کہیں نہیں جاؤں گا ۔ رحیم نے حسب عادت غصے سے کہا بے چارہ اس کا دوست جو بڑی امیدوں کے ساتھ رحیم کے پاس آیا تھا اپنا سا منہ لے کر چلا گیا ۔ رحیم کے ہر وقت چڑ چڑے رہنے اورغصے کی عادت کی وجہ سے اس کے دوست اب آہستہ آہستہ اس سے کترانے لگے اور پھرایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب رحیم کا کوئی بھی دوست باقی نہیں رہا کیوں کہ جو غصے والے ہو تے ہیں ان سے کوئی بھی دوستی کرنا پسند نہیں کرتا ، پیاراوراخلاق سے ہی لوگوں کے دل جیتے جاتے ہیں۔

خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے Khuda Deta Ha Tu Chappar Phar kar Deta Ha

تصویر
 خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے   جب مہنگائی بہت زیادہ ہو تو گھر کا گزارا بڑی مشکل سے ہوتا ہے ۔ یہی حال کچھ فاروق کے ساتھ تھا۔ وہ دن میں کالج میں پڑھتا اور شام میں بچوں کے کھلونے فروخت کرتا۔ اس طرح وہ اپنے بوڑھے ماں، باپ کا پیٹ پال رہا تھا۔ فاروق ایک دن بازار میں کھلونے بیچ رہا تھا- تو اس نے دیکھا کہ ایک جگہ انعامی رقم کے ٹکٹ مل رہے ہیں فاروق نے بھی ایک سوروپے والا ٹکٹ خرید لیا۔ دن گزرتے گئے اور فاروق بچوں کے کھلونے فروخت کر کے اپنی تعلیم اور گھر کا خرچ پورا کرتارہا۔ ایک دن اخبار میں ان ٹکٹوں کے نمبر شائع ہوۓ جوانعامی رقم کے حوالے سےفاروق نے خریدا تھا۔ اس نے دھڑ کتے دل سے پہلے اپنے ٹکٹ کے نمبرکود یکھا اور پھر اخبار میں آنے والے نمبروں سے ملانے لگا۔ "وہ مارا....!"فاروق خوشی سے چلایا ۔ پہلا انعامی رقم کا نمبراس کے خریدے ہوۓ ٹکٹ سے مل گیا تھا۔ اب توفاروق کے وارے نیارے ہو گئے ۔ پورے محلے میں خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سب ہی محلے والے فاروق کوانعام نکلنے پر مبارک باد دے رہے تھے۔ واقعی سچ ہے کہ ’خداد یتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے‘۔

غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے Ghalti Koi Kare Aur Uski Saza Kisi Aur Ko Miley

تصویر
  غلطی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو ملے  یاور اور نواز کی صورتیں کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی تھیں اکثر ایسا بھی ہوتا کہ یاور کی غلطیوں اور شرارتوں کی سزا بچارے نواز کو ملتی۔ یاور اور نواز دونوں جڑواں بھائی تھے۔ یاور بہت حد تک شرارتی تھا جبکہ نواز سیدھا لڑکا تھا۔ ایک دن شب برات کی موقع پر گلی میں کچھ لڑکے پٹاخے پھوڑ رہے تھے۔ یاوربھی ان لڑکوں میں شامل تھا۔ پٹاخے چھوڑنے کی وجہ سے محلے کے لوگ پریشان نظرآ رہے تھے اس لئے وہ ان لڑکوں کو ڈانٹنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلے تو سارے لڑکے بھاگ گئے۔ محلے کے ایک شخص نے یاوراور نواز کے گھر میں شکایت کردی کہ نواز پٹاخے چھوڑ رہا ہے۔ نواز کے ابو نے نواز کوخوب ڈانٹ پلائی جبکہ یاور دوسرے کمرے میں چھپا بیٹھا تھا اور نواز ابو کی ڈانٹ کے کھاتے وقت سوچ رہاتھا کہ گناہ بھی کوئی کرے اور اس کی سزا کسی کو ملے ۔

بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی Bewakof Ki Khas Nishani Nhi Hoti

تصویر
  بے وقوف کی خاص نشانی نہیں ہوتی  میری بات پر یقین کرو، جنگل میں خزانہ دفن  ہے عباس نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوۓ کہا۔ تم خواہ مخواہ کی بات کر ر ہے ہو، یہ بھلا کیسےممکن ہے؟ قاسم نے تعجب کا اظہار کر تے ہوۓ کہا۔ عباس اور قاسم گہرے دوست تھے ۔ عباس کوکسی طرح یہ بات معلوم ہوئی کہ جنگل میں خزانہ دفن ہے اس لیے وہ اپنی بات پر اصرار کر رہا تھا جبکہ قاسم کو اس بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ دونوں دوست اس معاملے پر کافی دیر سے بحث کر ر ہے تھے ۔ ’’تم مجھے بے وقوف لگتے ہو قاسم نے عباس کی طرف غور سے دیکھتے ہوۓ کہا۔ کیا میں تمہیں بے وقوف لگتا ہوں؟‘‘عباس نے مصنوعی غصے سے پوچھا۔ کیوں؟ بے قوف کے سر پر کیا سینگ ہوتے ہیں؟ قاسم نے عباس کوایک بار پھر غور سے دیکھتے ہوۓ کہا اب توعباس کو جیسے واقعی غصہ آ گیا وہ قاسم کو مارنے کے لیے اس کی طرف بھاگا مگرقاسم پہلے سے ہی تیار تھا وہ وہاں سے بھاگ گیا اور عباس منہ پھلاۓ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

باد شاہ کا حکم Badshah Ka Hukum

تصویر
  باد شاہ کا حکم  گھوڑوں کی آوازوں سے لگتا تھا ۔ کہ جیسے بستی میں زلزلہ آ گیا ہو۔ گھوڑوں پر سوارلوگ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوۓ بستی میں داخل ہوۓ ۔ "بستی کا سردار کہاں ہے"؟ بستی میں داخل ہوکرایک گھوڑے سوار نے ( ادھرادھر نظر دوڑاتے ) ہوۓ کہا۔ "میں ہوں بستی کا سردار کیا بات ہے"؟ بڑی عمر کا ایک شخص آگے بڑھا۔ "تمہیں بادشاہ نے اپنے دربار میں بلایا ہے، ابھی اوراس وقت پہنچو"۔ گھوڑے سوار نے کہا اور پھر سارے گھوڑے سواراپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوۓ واپس روانہ ہو گئے ۔" بابا آخر بادشاہ نے آپ کو کیوں بلایا ہوگا" سردار کے بیٹے نے پوچھا۔ "مجھے کیا خبر، مجھے تو اب جلدی سے جاناہی ہو گا کیوں کہ حاکم کا ملازم ہمیشہ جلدی ہی کرتا ہوا آ تا ہے" ۔ سردار نے کہا اور پھر وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے جلدی جلدی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔

وہ خاتون جو گھر کے سارے کام خودہی کرتی ہوں (Wo Khatoon Jo Ghar Ke Sarey Kam Khud Hi Karti Hain)

تصویر
 وہ خاتون جو گھر کے سارے کام خودہی کرتی ہوں  خالہ محمودہ کا اس دنیا میں کوئی تھا ہی نہیں ۔ان کے شوہر کا انتقال بہت پہلے ہو چکا تھا اوراولاد بھی ان کی کوئی نہیں تھی ۔اپنے گھر میں وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں ۔ اکیلے  پن سے گھبرا کر وہ اکثر آس پڑوس کے گھروں میں بیٹھ جایا کرتیں اور ادھر ادھر کی  با تیں کر کے اپناوقت پاس کر تیں ۔ خالہ محمودہ کی وہی مثال تھی کہ "آپ ہی بی بی آپ ہی باندی" اپنے گھر کے سارے کام خود ہی کرتیں ۔ خالہ محمودہ کبھی کبھی اپنے اکیلے پن سے گھبرا ا بھی جاتیں ۔ ایک دن انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے گھر میں پرندے اور کچھ پالتو جانور پال لیے جائیں تا کہ ان کی دیکھ بھال میں وقت اچھا گز رجاۓ ۔ یہ سوچ کر خالہ محمودہ نے مختلف قسم کے پرندوں کے ساتھ ساتھ ایک بکری اور ایک دنبہ بھی خریدلیا۔ پرندوں اور پالتو جانوروں کو گھر میں لے آنے کے بعد خالہ محمودہ کا وقت اب پہلے سے بہت اچھا گزرنے لگا۔ پرندوں کی آواز سے ان کے گھر میں رونق سی ہوگئی وہ پرندوں اور جانوروں کی خدمت کر کے ایک خوشی محسوس کرنے لگیں اور ان کا وقت بھی اچھا گز رنے لگا۔

پیاسا کوا (Piyasa Kawwa)

تصویر
 پیاسا کوا ایک دن ، ایک پیاسے کوا نے پانی کی تلاش میں پورے میدان میں اڑان بھری۔ ایک لمبے عرصے تک ، اسے کچھ نہیں مل سکا۔ اسے بہت کمزوری محسوس ہوئی   اچانک ، اس نے اپنے نیچے پانی کا گھڑا دیکھا۔ وہ سیدھے نیچے اُترا -  اس کے اندر پانی تھا کوے نے اپنے سر کوگھڑا میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ افسوس کی بات ہے ، وہ کر نہیں پایا   گھڑا بہت تنگ تھا۔ تب اس نے گھڑاکو نیچے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی پانی باہر بہنےلگا اسے پتہ چلا کہ جگہ بہت زیادہ ہے۔ کوا نے کچھ دیر خوب سوچا۔ پھر اس نے اپنے آس پاس دیکھتے ہوئے ، اسے کچھ کنکر دیکھ کر خیال آیا۔ اس نے کنکراٹھانا شروع کیے ایک ایک کر کے کنکریاں کو ، ایک جگہ کرتی گئی ۔ زیادہ سے زیادہ  کنکروں سے جگہ بھردی ، پانی کی سطح بڑھتی چلی گئی۔ جلد ہی یہ اونچی ہو گئی   اس کی منصوبہ بندی نے کام کیا- کوے نے پا نی پیا  اگر آپ کافی کوشش کرتے ہیں تو ، آپ کو جلد ہی آپ کا صلہ مل سکتا ہے

توبہ(Tuba)

تصویر
 توبہ ایک شخص نے ایک بار ایک متقی مسلمان کو یہ کہتے سنا کہ "آخری تیس برسوں سے  میں گناہ کے لئے توبہ کر رہا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کس طرح معاف کرے گا مجھے اس کے بارے میں بتائیں؟ " سننے والے نے پوچھا: "آپ کا کیا گناہ تھا؟" متقی مسلمان نے کہا: “ میری بازار میں ایک دکان تھی۔ ایک دن میں نے سنا کہ پورا بازار جل رہا ہے تو میں اپنی دکان دیکھنے کے لئے بھاگ گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میری دکان کے علاوه ساری دکانیں زمین پر مسمار ہوگئیں . میں نے کہا "الحمدالله " (تمام تعریف اللہ کی) ہےلیکن فوراً ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ جب میں ہوں تو اپنے آپ کو مسلمان کیسے کہہ سکتا ہوں میرے پڑوسیوں کے نقصان کو محسوس نہیں کر سکتے ہوں؟ اس لیے  میں توبہ کر رہا ہوں یہ پچھلے تیس سالوں سے میری  متوجہ ہے ۔

ریت اور پتھر(Raet or Phattar)

تصویر
  ریت اور پتھر ایک کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ دودوست صحرامیں سے گزر رہے تھے۔ دوران سفر کے کچھ مقام پر بحث ہوئی،اورایک دوست نے دوسرے دوست کوتھپڑ مارا دوسرے چہرہ تھپڑ لگنے سے زخمی ہوا،لیکن اس نے بغیر کچھ بھی کہہ،ریت میں لکھا:"آج میرے بہترین دوست   نے میر ے   چہرے پر تھپڑ مار ا   وہ چلتے رہے یہاں تک کہ انہیں نخلستان نہ ملے  جہاں انہوں نے فیصلہ کیا نہانا. وہ ، جسے تھپڑ مارا گیا تھا،وہ دلدل میں پھنس گیا اور ڈوبنے لگا ، لیکن دوست نے اسے بچایا۔ قریب قریب ڈوبنے سے دوست کے ٹھیک ہونے کے بعد ، اس نے ایک پتھر پر لکھا: "آج ہی میرے بہترین دوست نے میری زندگی کو بچایا۔ " جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور اپنے بہترین دوست کو بچایا تھا اس نے اس سے پوچھا  میں نے تمہیں تکلیف دینے کے بعد ، تم نے ریت میں لکھا اور اب ، تم پتھر پر لکھتے ہو  کیوں؟ دوسرے دوست نے جواب دیا: "جب کوئی ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے تو ہمیں اسے ریت پر لکھنا چاہئے نیچے ریت میں جہاں معافی کی ہوائیں اسے مٹا سکتی ہیں۔ لیکن ، جب کوئی ہمارے لئے کچھ اچھا کرتا ہے ، ہمیں اسے پتھر میں کندہ کرنا ہوگا کوئی ہوا کبھی اسے مٹانہیں سکتی۔  

قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا(Qareebi Sathi Ka Dushman Banna Ya Bura Chahna)

تصویر
 قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا   بہت دن پہلے کی بات ہے ملک مصر پرایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ بادشاہ اپنے سب ہی وزیر پر یقین کرتا تھا لیکن ان میں ایک وزیر جس کا نام نعمان تھا ا سے بادشاہ بہت پسند کرتا اور حکومتی معاملے میں   نعمان  سے اکثر مشورے لیا کر تا  نعمان  کی نیت کا بادشاہ کو ہرگز کو ئی علم نہیں تھا وہ اس پر بہت بھروسہ کرتا جبکہ  نعمان  کسی نہ کسی طرح بادشاہ کی حکومت کا تختہ گرا کر خود بادشاہ بننا چاہتا تھا۔  دن یوں ہی گزرتے گئے ۔ وزیر  نعمان  نے اپنے ساتھ کچھ اور وزیروں کوبھی ملا لیا اورانہیں ساتھ دینے پر انعام کا لالچ بھی دیا۔ بہت سے وزیر انعام و اکرام کی لالچ میں  نعمان  سے مل گئے اور پھر ایک دن  نعمان  نے بادشاہ ختم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا۔  ہوا یوں کہ جب بادشاہ اپنی رعایا کا حال معلوم کر نے کے لئے اپنے وزیروں کے ساتھ ایک قافلے کی صورت میں باہر نکلا تو وزیر  نعمان  نے بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت تقریب کسی جنگل میں بڑے ہی نایاب تیتر آئے ہوئے ہیں کیوں نہ ان کا شکار کیا جائے ۔  بادشاو تیتروں کا بہت شوقین تھا لہذا اس نے حامی بھرلی اور پھر یہ سب جنگل میں تیتروں کا شکار

ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا (Ek Musibat Ke Bad Dosri Musibat Mai Pasna)

تصویر
  ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا     واجد کو کسی کام کے سلسلے میں کراچی جانا تھا ۔ (  کراچی  کے لئے گاڑی کو ٹھیک آٹھ بجے روانہ ہونا تھا) اور ابھی صرف چھ بجےتھے۔  واجد  ایک بیگ میں اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب سامان پیک ہوگیاتو واجد  نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور اسے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔  ڈنگ.... ڈونگ..." دروازے پر بیل کی آواز سن کر واجد نے دروازہ کھولا تو اکمل  کھڑا تھا۔ " کیا پروگرام ہے جناب  اکمل  نے بولا۔ یار اکمل تمہیں تو معلوم ہے کہ آج میں رات آٹھ بجے والی ٹرین سے کراچی جا رہا ہوں ۔ تم ایسا کرو کہ مجھے اپنی موٹرسائیکل پر اسٹیشن تک چھوڑ دو زرا کمپنی رہے گی ۔ واجد نے بولا  اور پھر ساڑھے چھ بجے کے قریب  واجد ، اکمل  کے ساتھ  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہو گیا۔    موٹر سائیکل  نے تھوڑا فصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک بند ہو گی ۔   اکمل   موٹر سائیکل  کو ایک طرف کھڑی کر کے اسے دیکھنے لگا ۔ ذرا جلد ی کرو ۔  واجد  نے بے قراری سے کہا۔ تقریبا بیس منٹ کے بعد  موٹر سائیکل  پھر دوبارہ اسٹارٹ ہو گئی اور دونوں  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ابھی یہ دونوں صدر کے علاقے تک ہی پہنچے تھ

کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا(Kisi Cheez ka Miqdar Mai Bohat Kam Milna)

تصویر
  کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا  کمال بڑی محنت سے لیڈ یز جوتے بناتا اور پھرتیار کئے ہوئے جوتے  دکانداروں کو دیتا۔  کمال  نے   جوتے  بنانے کے لئے اپنے پاس کچھ کاریگر بھی رکھے ہوئے تھے جو اس کے ساتھ مل کر یہ  جوتے تیار کرتےاور ہر ہفتے یہ لیڈیز   جوتے  دکانوں پر لے جا تا۔ کوئی بھی دکاندار  کمال  کو سارے   جوتے  کی قیمت ایک ساتھ نہیں دیتا تھا بلکہ طریقہ کار یہ تھا کہ  کمال  ہر ہفتہ آٹھ سے دس ہزار روپے مالیت تک کے کئی  لیڈ یز جوتے  تیار کر کے  دوکانوں پر دیتا اور دکاندار ہر ہفتہ اسے صرف ہزار روپے دیتے ۔ یہ ایک ہزار روپے تو کاریگروں کو دینے میں بھی کم پڑتے-  کمال  مزید رقم بینک سے نکلواتااوریوں کاریگروں کی اجرت کے پیسے پورے کرتا۔  کمال  صرف یہی سوچتا کہ "میرے پیسے دکانداروں پرچڑھ ہی رہے ہیں, سال میں ایک بارعید کے موقع پرتو دوکاندار حساب پورا کر ہی دیتے ہیں کم از کم اس طرح میرا کا رو با ر تو چل رہا ہے"۔ کمال  کا کام اسی طرح چلتا رہا اور اب تو دکانداروں پرکئی ہزار روپے ہو گئے تھے اور کمال  کو صرف ایک ہزار روپے ہی ملتا رہا۔ ایک دن  کمال  نے اپنے دوست سے  تذ کرہ کرتے ہوئے کہا "

ایک چیز کے کئی طلب گار(Ek Cheez ke Kai Talabgar)

تصویر
 ایک چیز کے کئی طلب گار     آج علی بہت خوش تھا۔ اس کے ابو رنگین ٹی وی جولا رہے تھے۔ پوری گلی میں اس وقت رنگین ٹی وی کسی کے گھر بھی نہیں تھا- علی اپنے سب دوستوں کورنگین ٹی وی کے بارے میں بتارہا تھا"یار علی رنگین ٹی وی میں تصویر تو بڑی خوبصورت لگتی ہوگی؟" علی کے ایک دوست نے پوچھا-اور کیا.... بہت خوبصورت تصویر لگتی ہے۔ ابو کہ رہے تھے کہ ٹی وی مہنگا بھی بہت ہے۔ ابھی علی اپنے دوستوں کو بتاہی رہا تھا کہ اس کے ابوایک ٹیکسی میں رنگین ٹی وی رکھ کر لے آئے ۔ محلے میں خوب شور مچ گیا۔ سب ایک دوسرے کو علی کے گھر رنگین ٹی وی آنے کی اطلاع دے رہے تھے۔ علی کے گھر رنگین ٹی وی کیا گیا کہ محلے کے سب ہی چھوٹے بڑے اس کے گھر کسی نہ کسی بہانے سے آنے لگے ۔ علی کے دوست تو ہر وقت اس کے گھر ہی میں رہتے اور خوب مزے سے پاؤں پھیلا کر رنگین ٹی وی دیکھتے اور بہت خوش ہوتے - علی کے ابو نے جب اپنے گھر میں اتنارش دیکھاتو وہ ا پنی بیگم سے کہنے لگے "لو بھئی گھر میں رنگین ٹی وی کیا آگیا ساتھ میں محلے والے بھی لے آ یا وه بھی اتنے سارے "!!۔ پورے محلے میں صرف ہمارے گھر ہی تو رنگین ٹی وی آیا "ہے۔ علی کی ا