اشاعتیں

کبھی ما یوس نا ہوں Kabhi Mayoos Na Hon

تصویر
کبھی مایوس نا ہوں شمیم باجی اچانک اتنی بیمار ہوئیں کہ انہیں ہسپتال میں داخل کرانا پڑ گیا۔ سارے رشتہ دار انہیں دیکھنے کے لئے ہسپتال آرہے تھے ۔ شمیم باجی کے زیادہ تر رشتہ دار شہر سے دور رہتے تھے ۔ لیکن جیسے جیسے جس کو بھی اطلاع ملی- وہ شمیم باجی کی خیریت معلوم کرنے چلا آیا۔ شمیم باجی بہت محبت والی خاتون تھیں سب سے ہنس کر ملنا ان کی عادت کا حصہ تھا۔ ان کی بیماری کچھ اس نوعیت کی تھی کہ وہ بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں موجود تھیں اور زندگی کی امید بہت کم تھی مگر مرتے دم تک آ خر زندگی کی امید تو لگی رہتی ہے’’جب تک سانس تب تک آ س‘‘ شمیم باجی کے لئے سب ہی دعائیں کر ر ہے تھے۔ ان کے بھائی ہسپتال میں ہر وقت موجود رہے کہ نہ جانے کب کس وقت کس چیز کی ضرورت پیش آ جاۓ ۔ چند دنوں بعد شمیم باجی کی حالت پہلے سے کچھ بہتر ہونے لگی اور پھر وہ اپنے گھر واپس آ گئیں گھر پرشمیم باجی کے بیٹوں اوران کے شوہر نے ان کا خوب خیال رکھا اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگیں۔ سچ ہے زندگی کے ساتھ دکھ سکھ لگے رہتے ہیں۔ ہمارا کام تو صرف یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے دکھ کے دور ہونے اور سکھ کے رہنے کی دعا کریں۔ 

دوستی او تعلق بڑھانا Dosti Or Talooq Bharhana

تصویر
   دوستی او ر  تعلق بڑھانا  بارش بڑے زور سے ہورہی تھی ۔ ذین اپنے گھر جانے کے لیے ایک درخت کے نیچے کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک کار ذین کے پاس آکر رکی " ارے بھئی! آؤ میں تمہیں چھوڑ دوں"۔ کار والے نے ذین کو درخت کے نیچے کھڑے دیکھ کر کہا۔ "کون ہیں آپ ؟"  ذین نے حیرت سے پوچھا۔ "مجھے نہیں جانتے؟ میں تمہارے ابو کا دوست ہوں ، ایک بارتم سے ملاقات بھی ہوچکی ہے ، اب آ ؤ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ جاؤ ورنہ یہ بارش اب تھمنے والی نہیں"۔ کار والے نے کہا اتنے میں ذین کے گھر جانے والی بس بھی آ گئی اورذین بس میں سوار ہو گیا ۔ "ابو وه شخص کہہ رہا تھا کہ میں تمہارے ابو کا دوست ہوں ، جب کہ میں نے اسے آج تک نہیں دیکھا"۔ ذین نے گھر پہنچتے ہی اپنے ابو سے کہا۔ بیٹا کبھی بھی کسی انجان آ دمی کے ساتھ نہیں جا نا چاہئے، بہت سے لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ دوستی اورتعلق جتاتے ہیں - ذین کے ابو نےذین کو سجھاتے ہوۓ کہا اور ذین نے بھی وعدہ کیا کہ وہ بھی کسی ایسے شخص کے ساتھ نہیں جاۓ گا جسے وہ جانتا نہ ہو۔

ڈاکٹرعلی کا کلینک Doctor Ali Ka Clinic

تصویر
 ڈاکٹرعلی کا کلینک  موسم کیا بدلا بیماریوں نے جیسے سب ہی کا گھر د یکھ لیا ہو۔ ڈاکٹروں کی کلینک پر مریضوں کی لمبی چوڑی لائن لگی رہتی تھی ۔ بخار، نزلہ،سردرد اور ملیریا جیسی بیماریاں عام ہو چکی تھیں ۔ ڈاکٹر علی کی کلینک محمودہ آباد میں تھی ۔ ان کی کلینک پر بھی خوب رش لگارہتا تھا ۔ مریضوں کی قطار کلینک کے باہر تک نظر آتی ۔ ایسا لگتا تھا لوگ دوا لینے نہیں بلکہ کسی سبیل پرشربت لینے کے لیے کھڑے ہوں ۔ "ڈاکٹر صاحب میرا بخار تواترنے کا نام ہی نہیں لیتا"۔ ایک مریض نے ڈاکٹرعلی سے اپنے بخار نہ اترنے کی شکایت کرتے ہوۓ کہا۔ جناب آپ کوملیریا ہوا ہے، کچھ وقت تو لگے گا بخاراتر نے میں اور ویسے بھی بیماری کے متعلق کہا جا تا ہے کہ ’’ آتی ہے ہاتھی کے پاؤں اور جاتی ہے چیونٹی کے پاؤں‘‘۔ ڈاکٹر علی نے مریض کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا اور مریض دوا لے کر اللہ میاں سے اپنی بیماری کے خاتمے کی دعا کرتے ہوۓ اپنے گھر روانہ ہو گیا۔

وقت ضائع کرنا Waqt Zaya Karna

تصویر
 وقت ضائع کرنا  رمیض بیٹا تمہارے ٹیسٹ شروع ہور ہے ہیں ، پڑھائی میں دل لگا لو۔ رمیض کی امی نے  رمیض کو کمپیوٹر پر گیم کھیلتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔ "اچھا امی ابھی تھوڑی دیر میں پڑھتا ہوں"۔ رمیض نےکہا اور پھر گیم کھیلنےمیں لگ گیا ۔  رمیض کےٹیسٹ شروع ہوۓ اور پھر ایک ہفتے میں ختم بھی ہو گئے مگر جب ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ  رمیض تین مضامین میں فیل ہے ۔ اب تو رمیض بڑا ہی اُداس اوررو نےدھونے  لگا  ۔ "رونے کا اب کیا فائدہ جب موقع تھا پڑھائی کا تو تم نے پڑھانہیں اب پچتانے کا فائدہ ؟"  رمیض کو احساس ہوا کہ واقعی اس نے بڑی غلطی کی ہے جب ٹیسٹ شروع ہونے والے تھے تو اسے ساری توجہ اپنی پڑھائی پر ہی رکھنا تھی تا کہ وہ اچھے نمبرز حاصل کرتا مگر اس نے پڑھائی کا سارا وقت کمپیوٹر پر گیم  کھیلنے میں گزار دیا۔

شہرت زیادہ حقیقت کچھ نہیں Shohrat Ziada Haqeeqat Kuch Nhi

تصویر
 شہرت زیادہ حقیقت کچھ نہیں  ارحم کا موڈ آج بہت خراب تھا۔ اس کا قمیتی بلا جوٹوٹ گیا تھا۔ اسے دکھ اس بات کا تھا کہ آج اس کا میچ تھا اور آج ہی بلا بھی ٹوٹ گیا , ارحم نے اپنے ابو سے نیا بلا خریدنے کے لیے بازار چلنے کو کہا۔ ابو اتنی مشہور کمپنی کا بلا ٹوٹ گیا اب اس سے بہتر کمپنی تو اور نہیں "تم کس کمپنی کا بلا خریدو گے؟" ابو نے پوچھا اب ہم مشہور کمپنی کے بجائے غیر معروف کمپنی کا مگر اچھا بلا خرید یں گے ۔ اس لیے کہ مشہور کمپنی کے بیٹ کا حال تو دیکھ ہی لیا ” درشن تھوڑے نام بہت‘‘۔ ارحم نے کہا اور پھر دونوں باپ بیٹا ایک غیر معروف مگر اچھی کمپنی کا بیٹ خریدلاۓ اور پھر اس بیٹ سے ارحم  نے وہ چو کے اور چھکے لگاۓ کہ میچ دیکھنے والے بھی دیکھتے ہی رہ گئے ۔ بعض اوقات مشہور ہو جانے والی چیز میں اپنے معیار پر پورانہیں اترتیں ، شہرت زیادہ ہوتی ہے اور حقیقت کچھ  نہیں اس کے برعکس غیر معروف مگر اچھی کمپنیوں کی مصنوعات زیا دہ پائیدار ثابت ہوتی ہیں۔