اشاعتیں

بہت مہنگائی ہوگئی ہے(Buhat Mahengai Hogai Ha)

تصویر
 بہت مہنگائی ہوگئی ہے  آج عمر کی سالگرہ تھی۔ اس کے ابو نے تمام انتظامات مکمل کر لئے تھے- صرف ایک بکرا لینے جانا تھا کہ اسے ذبح کر کے مہمانوں کے کھانے کا انتظام کیا جا سکے۔ ابو میں آپ کے ساتھ بکرا لینے چلوں  عمر  اپنے ابو سے پوچھا۔ ہاں! بیٹا چلو دونوں باپ بیٹا بکرا خریدنے کے لئے جانوروں کی منڈی پہنچے پھر جلدی ہی انہیں ایک بہت اچھا بکرا مل گیا جو اس کے ابو نے پانچ ہزار میں خرید لیا۔    ابو  بکرا تو بہت شاندار ہے  پانچ ہزار  میں مہنگا تو نہیں نا عمر نے اپنے ابو سے پوچھا۔ ہاں بیٹا واقعی پانچ ہزار میں بہت اچھا بکرا مل گیا ہے۔ اس کے اہونے کہااور پھر وه بکرالے کر اپنے گھر لے آئے شام میں اس بکرے کو ذبح  کر کے اور اس کی بوٹیاں بنا کر دیگ میں چڑھائی گئیں اور سب مہمانوں نے مزے مزے سے رات کا کھانا کھایا - ہر کوئی عمرکو سالگرہ کی مبارکباددے رہا تھا۔  دن گزرتے گئے اور پھر تین مہینے بعد ہی عید قرباں آ گئی ، عمر کو عید  قریاں بڑی پسند تھی۔ اسے جانور ذبح ہوتے دیکھنے کو جو ملتے اور پھر وہ خود بھی تو اپنے ابو کے ساتھ بکرا خریدنے جاتا تھا۔ اس دن بھی وہ اپنے ابوکے ساتھ بکرا خریدنے گیا مگر مناسب قیمت پر انہ

قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا(Qareebi Sathi Ka Dushman Banna Ya Bura Chahna)

تصویر
 قریبی ساتھی کا دشمن بننایابُرا چاہنا   بہت دن پہلے کی بات ہے ملک مصر پرایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ بادشاہ اپنے سب ہی وزیر پر یقین کرتا تھا لیکن ان میں ایک وزیر جس کا نام نعمان تھا ا سے بادشاہ بہت پسند کرتا اور حکومتی معاملے میں   نعمان  سے اکثر مشورے لیا کر تا  نعمان  کی نیت کا بادشاہ کو ہرگز کو ئی علم نہیں تھا وہ اس پر بہت بھروسہ کرتا جبکہ  نعمان  کسی نہ کسی طرح بادشاہ کی حکومت کا تختہ گرا کر خود بادشاہ بننا چاہتا تھا۔  دن یوں ہی گزرتے گئے ۔ وزیر  نعمان  نے اپنے ساتھ کچھ اور وزیروں کوبھی ملا لیا اورانہیں ساتھ دینے پر انعام کا لالچ بھی دیا۔ بہت سے وزیر انعام و اکرام کی لالچ میں  نعمان  سے مل گئے اور پھر ایک دن  نعمان  نے بادشاہ ختم کرنے کا ایک منصوبہ بھی بنایا۔  ہوا یوں کہ جب بادشاہ اپنی رعایا کا حال معلوم کر نے کے لئے اپنے وزیروں کے ساتھ ایک قافلے کی صورت میں باہر نکلا تو وزیر  نعمان  نے بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت تقریب کسی جنگل میں بڑے ہی نایاب تیتر آئے ہوئے ہیں کیوں نہ ان کا شکار کیا جائے ۔  بادشاو تیتروں کا بہت شوقین تھا لہذا اس نے حامی بھرلی اور پھر یہ سب جنگل میں تیتروں کا شکار

ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا (Ek Musibat Ke Bad Dosri Musibat Mai Pasna)

تصویر
  ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنا     واجد کو کسی کام کے سلسلے میں کراچی جانا تھا ۔ (  کراچی  کے لئے گاڑی کو ٹھیک آٹھ بجے روانہ ہونا تھا) اور ابھی صرف چھ بجےتھے۔  واجد  ایک بیگ میں اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب سامان پیک ہوگیاتو واجد  نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور اسے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔  ڈنگ.... ڈونگ..." دروازے پر بیل کی آواز سن کر واجد نے دروازہ کھولا تو اکمل  کھڑا تھا۔ " کیا پروگرام ہے جناب  اکمل  نے بولا۔ یار اکمل تمہیں تو معلوم ہے کہ آج میں رات آٹھ بجے والی ٹرین سے کراچی جا رہا ہوں ۔ تم ایسا کرو کہ مجھے اپنی موٹرسائیکل پر اسٹیشن تک چھوڑ دو زرا کمپنی رہے گی ۔ واجد نے بولا  اور پھر ساڑھے چھ بجے کے قریب  واجد ، اکمل  کے ساتھ  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہو گیا۔    موٹر سائیکل  نے تھوڑا فصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک بند ہو گی ۔   اکمل   موٹر سائیکل  کو ایک طرف کھڑی کر کے اسے دیکھنے لگا ۔ ذرا جلد ی کرو ۔  واجد  نے بے قراری سے کہا۔ تقریبا بیس منٹ کے بعد  موٹر سائیکل  پھر دوبارہ اسٹارٹ ہو گئی اور دونوں  اسٹیشن  کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ابھی یہ دونوں صدر کے علاقے تک ہی پہنچے تھ

وقت گزرنے کے بعد پچھتانا (Waqt Guzarne Ke Bad Pachtana)

تصویر
  وقت گزرنے کے بعد پچھتانا   ارمان بیٹا بہت کھیل چکے اب آ کر کچھ پڑھ لو ۔  تمہارے پیپر شروع ہونے والے ہیں- “ارمان کی امی نے اسے آواز دیتے ہوئے کہا۔ ارمان نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ کھیل کا بہت شوقین تھا۔ اس کے والدین اسے سمجھتے بھی کہ ہر وقت کھیل ٹھیک نہیں ا سے پڑھائی بھی کرنی چاہئیے لیکن ارمان ہاں ، ہوں کر کے وقت گزارتا رہا۔   مارچ کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور ساتھ ہی اب ارمان کے پیپر بھی شروع ہو چکے تھے۔ارمان نے چونکہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کیا تھالہذا وہ امتحانات کی صحیح طور پر تیاری نہیں کر پایا۔ جب اس کے امتحان شروع ہوئے تو کوئی بھی پرچہ ارمان اچھی طرح حل نہیں کرسکا بلکہ بہت سے پرچوں میں تو اس نے سوالات کے مکمل جوابات بھی نہیں لکھے۔  جب ارمان امتحان دے کر آیا تو اس کے امی ابو اس سے پوچھتے " بتاؤ ارمان تمہارا آج کا پر چہ کیسا ہوا ؟“  بس ٹھیک ہوا ہے۔" یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا جاتا۔"  لگتا ہےارمان کے پرچہ اچھےنہیں ہورہے ہیں ۔" اس کے ابو نےارمان کی امی سے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا۔  "ہاں میرا بھی یہی خیال ہے“۔ارمان کی ا می نے کہا۔  آج ارمان کا

کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا(Kisi Cheez ka Miqdar Mai Bohat Kam Milna)

تصویر
  کسی چیز کامقدار میں بہت کم ملنا  کمال بڑی محنت سے لیڈ یز جوتے بناتا اور پھرتیار کئے ہوئے جوتے  دکانداروں کو دیتا۔  کمال  نے   جوتے  بنانے کے لئے اپنے پاس کچھ کاریگر بھی رکھے ہوئے تھے جو اس کے ساتھ مل کر یہ  جوتے تیار کرتےاور ہر ہفتے یہ لیڈیز   جوتے  دکانوں پر لے جا تا۔ کوئی بھی دکاندار  کمال  کو سارے   جوتے  کی قیمت ایک ساتھ نہیں دیتا تھا بلکہ طریقہ کار یہ تھا کہ  کمال  ہر ہفتہ آٹھ سے دس ہزار روپے مالیت تک کے کئی  لیڈ یز جوتے  تیار کر کے  دوکانوں پر دیتا اور دکاندار ہر ہفتہ اسے صرف ہزار روپے دیتے ۔ یہ ایک ہزار روپے تو کاریگروں کو دینے میں بھی کم پڑتے-  کمال  مزید رقم بینک سے نکلواتااوریوں کاریگروں کی اجرت کے پیسے پورے کرتا۔  کمال  صرف یہی سوچتا کہ "میرے پیسے دکانداروں پرچڑھ ہی رہے ہیں, سال میں ایک بارعید کے موقع پرتو دوکاندار حساب پورا کر ہی دیتے ہیں کم از کم اس طرح میرا کا رو با ر تو چل رہا ہے"۔ کمال  کا کام اسی طرح چلتا رہا اور اب تو دکانداروں پرکئی ہزار روپے ہو گئے تھے اور کمال  کو صرف ایک ہزار روپے ہی ملتا رہا۔ ایک دن  کمال  نے اپنے دوست سے  تذ کرہ کرتے ہوئے کہا "