اشاعتیں

مصر کا ایک بُت Misaar Ka Ek Bott

تصویر
مصر کا ایک بُت اہرام مصرمیں ایک بڑا بُت ہے جس کا سرانسان کا اور دھڑ شیر کا ہے ۔ اس کی لمبائی 66 گز اور اونچائی 24 گز ہے ۔ اسے دیکھ کر بڑا لگتا ہے، اسی لیے اسے ابوالہول کہتے ہیں۔ یعنی خوف والا ۔ یہ بُت غزہ کے قریب ایک بڑی چٹان تراش کر بنایا گیا ہے۔ پہلے اس کا صرف سرنظر آتا تھا۔ پھر مصر کے محکمہ آثار قدیمہ نے 1817ء میں یہاں کھدائی کی۔ صدیوں کی بیٹھی ہوئی مٹی اور ریت ہٹائی گئی تویہ پورا  بُت نظر آیا۔ اس کی داڑھی اور ناک ٹوٹ چکی ہے جس میں سے وہ اور بھی خوف ناک نظر آتا ہے ۔ اس  بُت کی کہانی میں ہے کہ یہ ایک جن تھا اور مختلف شکلیں بدلتا رہتا تھا۔ یہ لوگوں سے بڑے بڑے سوال کرکے پریشان کیا کرتا تھا۔ اور اگر وہ اس کے سوالوں کے جواب نہ دیتے تو انہیں کھاجاتا تھا۔ اس کا سب سے اہم سوال یہ تھا کہ وہ کون سا جانور ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے، دو پہر کو دو ٹانگوں پر اور شام تین ٹانگوں پر چلتا ہے ۔ ایک شخص نے اس کے سوالوں کا جواب دے دیا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ وہ انسان ہے جو بچپن میں چار ہاتھ پاؤں سے چلتا ہےجوانی میں دو ٹانگوں پراور بڑھاپے میں دو ٹانگوں اور ایک لا ٹھی کے سہارے چلتا ہے اس کے بعد یہ

ظلم اور دعا Zulm Or Dua

تصویر
 ظلم اور دعا   ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عالم بادشاہ کے جسم پر ایک ایسا پھوڑا نکل آیا جس میں سنحت جلن تھی۔ بادشاہ نے بہت علاج کرایا لیکن پھوڑا ٹھیک ہونے کے بجائے بڑھتا ہی گیا اور بادشاہ اس پھوڑے کی تکلیف سے سوکھ کر کانٹا ہوگیا۔  ایک درباری نے بادشاہ کو ایک بزرگ کا  بتایاجن کے متعلق مشہور تھا کہ ان کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ بادشاہ نے ان بزرگ سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا کریں۔ بزرگ نے فرمایا،" اے بادشاہ! مجھ ایک شخص کی دعا ان لاکھوں مظلوموں کی بد دعاؤں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی جو تیرے ہاتھوں تکلیفوں میں مبتلا ہیں۔ جب تک تو ان پر رحم نہیں کرے گا اللہ تعالی تجھ پر بھی رحم نہیں کرے گا۔" بادشاہ پر بزرگ کی باتوں کا بہت اثر ہوا۔ اس نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو فوراً رہا کردیا جاۓ اور آئندہ سے کسی بے گناہ پر ظلم نہ ہو ۔ جب بزرگ کو اطمینان ہو گیا کہ بادشاہ نیکی کی طرف مائل ہے تو بزرگ نے اللہ تعالی سے دعا کی:" اے اللہ تو نے اس بادشاہ کو اس لیے تکلیف میں مبتلا کیا کہ یہ تیرے بندوں کو تکلیف دے رہا تھا ۔ اب اس نے اس برائی سے توبہ کر لی ہے تو تو بھی اس کی تکلیف کو دور فرما دے ۔" ابھی

Informative Post 1

تصویر
  سوال: سورج یا تیز روشنی پر کچھ دیر نظررکھنے کے بعد ہمیں چاروں طرف اندھیرا کیوں نظر آتا ہے؟    جواب : ہماری آنکھ کی پتلی میں قدرتی طور پر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ تیز روشنی میں سکڑ جاتی ہے تا کہ آنکھ میں زیادہ روشنی داخل نہ ہو اور اسے نقصان نہ پہنچے ۔ اندھیرے میں ہماری پتلی کچھ پھیل جاتی ہے تا کہ آنکھ میں زیادہ روشنی داخل ہو سکے اور ہم اندھیرے میں بھی چاروں طرف کی چیزیں دیکھ سکیں ۔ جب آپ سورج پر نظر ڈالتے ہیں ۔" ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے" یا کسی تیز روشنی کو کچھ دیر دیکھ کر نظر ہٹاتے ہیں تو آپ کی آنکھ کی پتلی خاصی سکڑ چکی ہوتی ہے اور آپ کو چاروں طرف اندھیرا جیسا نظر آتا ہے ۔ جب تیز روشنی کا اثر ختم ہو جا تا ہے اور پتلی اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے تو پھر آپ پہلے کی طرح دیکھنے لگتے ہیں۔

جلدی غصہ آنا Jaldi Gussa ana

تصویر
  جلدی غصہ آنا  بات بات پر لڑ نا اور غصے ہونا اچھا نہیں ، اسکول سے تمہاری شکایات بہت آ رہی ہیں کہ تم بچوں سے لڑتے ہو." جمیل کے ابو نے رات کے کھانے کے بعد جمیل سے اس کے کمرے میں بات کرتے ہوۓ کہا۔ "ابو میں کیا کروں ، مجھے بہت جلدی غصہ آ جا تا ہے " جمیل نے اعتراف کرتے ہوۓ کہا۔ "بیٹا غصہ کرنا بہت بری عادت ہے ،اپنی اس عادت کو بد لو غصہ اور تیز مزاجی سب کو د شمن ، جبکہ میٹھے بول اور اخلاق سے پر گفتگو سب کو دوست بناتی ہے ، ہمیشہ یادرکھو بیٹا کہ ’زبان شیریں ملک گیری ، زبان ٹیڑھی ملک بانکا‘۔ جمیل کے ابو نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا اور پھرجمیل نے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ غصہ نہیں کرے گا اور سب سے پیار کرے گا تا کہ سب اس کے دوست بن جائیں۔ اس دن کے بعد واقعی جمیل نے اپنے آپ کو بدل لیا ۔ اب وہ سب سے محبت سے بات کر تا ۔ جلد ہی جمیل نے محسوس کیا کہ اس کے محبت سے بات کر نے کی وجہ سے لوگ خوداس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور ہرکوئی اس سے دوستی کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔

رحم دل انسان Reham Dil Insan

تصویر
رحم دل انسان  گاؤں راجن پور کے لوگ گاؤں کے چوہدری سے بڑے پریشان تھے۔ چوہدری کو صرف اپنی جیب بھرنے کا خیال رہتاوہ گاؤں کے لوگوں کی ذرا بھی پروا نہیں کر تا تھا اور نہ ہی ان کے دکھ سکھ  میں کام آتا۔ گاؤں کے چوہدری کا ایک ہی بیٹا تھا۔ اس کا نام عادل تھا ۔ عادل باہر ملک سے پڑھ کر آیا تھا اوراس کا مزاج اپنے والد سے بالکل مختلف تھا۔ عادل دوسروں کے دکھ سکھ میں کام آنے والا اور محبت کرنے والا شخص تھا ۔ گاؤں کے لوگ فرصت کے لمحات میں چو ہدری کے متعلق باتیں کرتے "بھلا یہ بھی کوئی انسانیت ہے اپنا پیٹ تو کتا بھی پا لتا ہے بات تو جب ہے کہ چوہدری سب کا خیال رکھے" ایک بزرگ نے ذرا غصے سے کہا۔ وقت گزرتا گیا اور پھرایک دن چوہدری کا انتقال ہوگیا۔ گاؤں کے لوگوں کو چو ہدری کے مرنے کاغم نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ چوہدری کی جگہ اب اس کے بیٹے نے سنبھال لی تھی جو کہ سب کی خبر گیری رکھنے اور محبت کرنے والاشخص تھا۔ گاؤں کے لوگ اب خوش تھے کیوں کہ اب ان کے گاؤں کا چوہدری کوئی ظالم نہیں بلکہ ایک رحم دل انسان تھا۔